Deobandi Books

تقریر ختم قرآن مجید و بخاری شریف

ہم نوٹ :

15 - 38
نے ایک بار ان سے پوچھا کہ تمہاری آستین میں کیا ہے؟ انہوں نے عرض کیا کہ بلی۔ فرمایا: أَنْتَ أَبُوْہُرَیْرَۃْ!بس آہ جو نام آپ کی زبانِ مبارک سے نکل گیا وہی عالم میں مشہور ہوگیا۔ یہ سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبوبیت اور مقبولیت کی دلیل ہے۔
آخر میں جو حدیث امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے پیش کی، اس میں تین عظیم الشان نعمتیں ہیں جو ہر مومن کو مطلوب ہیں اور یہ علم عظیم اللہ تعالیٰ نے ابھی میرے قلب کو عطا فرمایا۔ بارہا اس حدیثِ پاک کو پڑھا لیکن کبھی اس طرف ذہن منتقل نہیں ہوا کہ اس حدیث میں تین نعمتیں پوشیدہ ہیں:
۱)  کہ ہمارے اخلاقِ رذیلہ جاتے رہیں اور ہم پاکیزہ اخلاق والے ہوجائیں۔
۲) اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنی مخلوق میں عزت عطا فرمائے۔ 
۳) مخلوق کی نگاہوں میں عظمت حاصل ہو،فِیْ اَعْیُنِ النَّاسِ کَبِیْرًاہوجائیں، لیکن خود بڑے بننے کا شوق نہ کریں۔ اللہ تعالیٰ لوگوں کی نظروں میں بڑا بنادیں لیکن اپنی نگاہ میں ہم چھوٹے ہوں تو یہ نعمت ہے، خود اپنی تعریف کرنا حرام اور اپنے کو قابلِ تعریف سمجھنا حرام لیکن اللہ تعالیٰ مخلوق کی زبان سے اگر ہماری تعریف کرادے تو نعمت ہے۔
علامہ آلوسی رحمۃ اللہ علیہ نے رَبَّنَاۤ  اٰتِنَا فِی الدُّنۡیَا حَسَنَۃً11؎کی تفسیر میں لکھا ہے کہ ثنائےخلق بھی حَسَنَۃْ کی ایک تفسیر ہےکہ دوسرے لوگ اس کی تعریف کریں تو یہ حَسَنَۃْ یعنی دنیوی بھلائی میں داخل ہے۔ اس کے علاوہ حَسَنَۃْ کی تفسیر میں نیک بیوی بھی ہے، نیک بچے بھی ہیں، رزقِ حلال بھی حَسَنَۃْ میں ہے، علمِ دین بھی حَسَنَۃْمیں سے ہے، صحبتِ صالحین بھی حَسَنَۃْ میں سے ہے۔ دوستو! سوچ لو کہ جن لوگوں کو صحبتِ صالحین حاصل نہیں لاکھوں تہجد کے باوجود ان کی زندگی حَسَنَۃْ کے اس شعبہ سے تشنہ ہے، اس نعمت سے تشنہ ہے۔ پس ثناء الخلق یعنی مخلوق میں تعریف ہونا جب حسنۃ کا ایک شعبہ ہے تو اس سے گھبرانا نہیں چاہیے،بعض لوگ کہتے ہیں کہ میری تو نیکی برباد ہوگئی کیوں کہ سب میری تعریف کررہے ہیں،یہ نادانی ہے۔ جب مخلوق تعریف کرے تو اللہ کی نعمت کا شکر ادا کرو کہ
_____________________________________________
11؎  البقرۃ: 201
Flag Counter