ہی قریب ہوگا، یہ ضروری نہیں کہ مدینہ منورہ میںدفن ہو تو قرب نصیب ہو ورنہ نہ ہو، بعض لوگ مدینہ منورہ اور اُس کے قرب و جوار میں دفن ہونے کے باوجود قربِ رسالت سے محروم ہیں جیسے اَبوجہل، اَبولہب، عبد اللہ اِبن اُبی، کیونکہ یہ اہلِ تقوی میں سے نہ تھے یہ لوگ رسالت مآب ۖ کے بد ترین دشمن تھے، آقائے نامدار ۖ اِن پر اِحسان کرتے تھے اور یہ بدبخت آپ کو ستانے کے درپے رہتے تھے اِنہوں نے اپنی زندگیاں آقائے نامدار ۖ کی مخالفت ہی میں گزار دیں اِس لیے یہ قریب ہونے کے باوجود دُور ہیں۔ قرب کے حصول کامدار جسمانی طور پر نزدیک ہونا نہیں کیونکہ اگر ایسا ہوتا توصحابہ رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین میں سے کوئی بھی مدینہ منورہ سے باہر تشریف نہ لے جاتے کیونکہ اُنہیں آقائے کُل ۖ کے قرب سے کوئی چیز زیادہ محبوب نہ تھی حالانکہ بہت سے صحابہ نے جہاد وغیرہ کے لیے مدینہ منورہ کو چھوڑا، توجواِطاعت اور اخلاص میں آگے ہوگا وہی قرب میں بھی آگے ہوگا چاہے کتناہی دُور کیوں نہ رہتاہو اور کسی بھی ملک میں مد فون کیوں نہ ہو۔
جنابِ رسالت مآب ۖ نے یہ آخری چیز ایسی عجیب اِرشاد فرمائی کہ حضرت معاذ کو جس کام کے لیے بھیجا گیا اُس میں حضرت معاذ دل سے لگے رہے ہوں گے کیونکہ وہ آقائے نامدار ۖ کے قرب کے خواہش مندتھے، جو آپ کی اِطاعت پر موقوف ہے نہ کہ ساتھ رہنے پر۔
یہ معلوم رہے کہ صحابہ کرام کو ساتھ رہنے کا ثواب اوررسول اللہ ۖ کے ساتھ نمازیں اَدا کرنے کا ثواب سفر جہاد میں یا جہاں رسول اللہ ۖ کے حکم سے جاتے تھے برابر ملتا رہتا تھا گویا جب صحابۂ کرام مدینہ منورہ سے باہر جاتے تو اُنہیں مدینہ شریف میں رہنے کا ثواب بھی ملتا اور باہر جہاد وغیرہ پرجانے کا بھی جیسے آج کل اَفسران کوجب وہ سر کاری کام پر جاتے ہیں توتنخواہ توملتی ہی ہے اور بہت کچھ اور بھی ملتا ہے اِسی لیے تو صحابہ کرام باہر جاتے تھے ورنہ مدینہ شریف سے باہر کون جاتا ؟
حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سمجھدار عاشق تھے اِس لیے اُنہوں نے مرضی ٔ محبوب کو اپنی خواہش پر تر جیح دی اور سفرپر روانہ ہو گئے، ورنہ کون عا شق ہوگا جوایسی(جدائی کی) باتیں سن کر محبوب سے جدا ہو۔ (باقی صفحہ ٢٣)