عزیز و اقارب کے حقوق |
ہم نوٹ : |
|
اس لیے اپنے دوستوں سے کہتا ہوں کہ تھوڑا سا ہمت سے کام لو۔ ہم سب کو ہمت اللہ نے دی ہے ہم استعمال نہیں کرتے کیوں کہ اگر ہمت بالکل نہ ہوتی تو دنیاوی خوف سے ہمت کہاں سے آجاتی ہے۔ مثال کے طور پر ایک شخص مخنّث یعنی ہیجڑا، نامرد ہے، اس کو کوئی لاکھ ڈنڈے مارے توکیا وہ صحبت کرسکتا ہے؟ اسی طرح ایک شخص ٹائیفائڈ سے مر رہا ہے اس میں بالکل طاقت ہی نہیں ہے اس کے ڈنڈے مار کر کشتی لڑانا چاہو تو کیا وہ لڑسکتا ہے؟ لیکن ایک شخص ڈنڈے کے خوف سے تو گناہ سے بچ جاتا ہے لیکن جب ڈنڈا نہیں دیکھتا تو چُھپ کر گناہ کرلیتا ہے، یہ شخص اللہ کا بہت بڑا مجرم ہے کیوں کہ دنیاوی خوف سے تو بچتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ کے خوف سے نہیں بچتا۔ اس لیے دو رکعات پڑھ کر یہ دعا مانگو کہ یااللہ! ہماری ایک سانس بھی آپ کی نافرمانی میں نہ گزرے۔ میری زندگی کی جو سانس آپ کی ناراضگی میں گزرتی ہے اس سے منحوس گھڑی اور اس سے نا مبارک سانس روئے زمین پر کوئی نہیں۔ آپ کے علاوہ کوئی دوسرا اللہ نہیں ہے، ہم جیسے بندے تو لاکھوں ہیں بلکہ آپ کے بندے ایک سے ایک اچھے ہیں مگر آپ جیسا اللہ ہم کو کہاں ملے گا۔ اللہ کو ہماری ضرورت نہیں ہے ہمیں اللہ کی ضرورت ہے۔ اس لیے کوشش کرو اور ان اسباب کے قریب بھی نہ جاؤ جو اللہ سے دور کرنے والے ہیں دُعا بھی کرو اور روؤ بھی۔ رونے سے کام بن جائے گا، لیکن ہمت بھی کرو۔ حضرت یوسف علیہ السلام کو زلیخا نے جب دعوتِ گناہ دی تو آپ نے وہاں سجدہ میں گر کر دُعا نہیں کی بلکہ اُس جگہ سے بھاگے، راہِ فرار اختیار کی۔ دیکھو نبی نے تعلیم دے دی کہ ایسے مواقع سے بھاگو۔ جب زلیخا نے کہا ھَیْتَ لَکَ میں تجھ سے ہی کہتی ہوں، کیوں میری بات نہیں مانتا یعنی کیوں میرے ساتھ صحبت نہیں کرتا تو حضرت یوسف علیہ السلام نے فرمایا مَعَاذَ اللہِ 32؎ میں اللہ سے ڈرتا ہوں، اللہ سے پناہ مانگتا ہوں، تو مَعَاذَ اللہِ کہہ کر بھاگے۔ اس لیے گناہ سے ، فحاشی کے ماحول سے فرار اختیار کرنا واجب ہے، فرضِ عین ہے۔ جب سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم عذاب والی بستی سے گزرے تو آپ نے اپنا چہرہ مبارک چھپالیا اور روتے ہوئے گزر گئے اور اس عذاب والی بستی کے پانی سے جو آٹا گوندھ لیا گیا تھا تو اس کو پھنکوادیا اور فرمایا کہ یہاں سے روتے ہوئے گزر جاؤ، اس _____________________________________________ 32؎یوسف:23