عزیز و اقارب کے حقوق |
ہم نوٹ : |
|
ہوتی نہ یوں تکمیلِ محبّت اپنی تمنّا ہوتی جو پوری جس کی ہر تمنا پوری ہوجائے پھر وہ اللہ کا عاشق نہیں ہے۔ ہمارے بزرگوں نے تو یہ فرمایا کہ اللہ کی یاد میں تڑپتے رہو یہی حیات ہے۔ بہت پہلے جب میں حضرت مولانا شاہ محمد احمد صاحب کی مجلس میں پہلی بار حاضر ہوا تو حضرت ترنم سے یہ شعر پڑھ رہے تھے۔ حضرت کی آواز بھی غضب کی تھی۔ اُس وقت میرا کم عمری کا زمانہ تھا، طبیہ کالج میں پڑھ رہا تھا۔ کیا کہیں کہ کیسا مزہ آتا تھا! بڑے بڑے علمائے کرام ان کے قدموں میں بیٹھ کر لطف لیتے تھے، اللہ کی محبت سیکھتے تھے۔ جب میری ان سے پہلی دفعہ ملاقات ہوئی تو حضرت علماء کے سامنے یہ شعر پیش کررہے تھے ؎نہ جانے کیا سے کیا ہوجائے میں کچھ کہہ نہیں سکتا جو دستارِ فضیلت گُم ہو دستارِ محبت میں اور پھر یہ شعر کہا کہ الٰہ کے بغیر زندگی کیا ہے؟ فرماتے ہیں ؎دلِ مضطرب کا یہ پیغام ہے ترے بن سکوں ہے نہ آرام ہے تڑپنے سے مجھ کو فقط کام ہے یہی بس محبت کا انعام ہے جو آغاز میں فکرِ انجام ہے ترا عشق شاید ابھی خام ہے یعنی اللہ کے نام کے بغیر سکون و آرام ہوجائے یہ عشق نہیں ہے ،اور فرمایا ؎لطف جنت کا تڑپنے میں جسے ملتا نہ ہو دنیاوی عاشقوں کو تڑپنے میں بہت ہی مُصیبت اور تکلیف اُٹھانی پڑتی ہے، ان کی زندگی عذابِ دوزخ کا نمونہ ہوتی ہے، لیکن اللہ کی محبت میں جو تڑپتا ہے بے چین رہتا ہے اسی کے قلب پر سکینہ کی بارش ہوتی ہے، لہٰذا فرماتے ہیں ؎