( کتاب الدعوی )
]٢٧٣٠[(١)المدعی من لایجبر علی الخصومة اذا ترکھا والمدعی علیہ من یجبر علی
( کتاب الدعوی )
ضروری نوٹ کتاب الدعوی میں چار باتیں ہیں۔دعوی کس طرح کرے اور کس دعوی کا کیا مطلب ہے۔دوسری بات ہے کہ کن لوگوں پر گواہ پیش کرنا لازم ہے اور کس طرح گواہ پیش کرے۔تیسری بات ہے کہ اگر گواہ نہ ہوں تو کن لوگوں پر قسم لازم ہے اور کس طرح قسم کھلائے۔اور چوتھی بات یہ ہے کہ کس طرح فیصلہ کرے۔ یوں فیصلے کے معیار تین ہیں۔گواہ،وہ نہ ہوں تو قسم کھلانا۔اور اس سے بھی معاملہ حل نہ ہوتا ہو تو علامات دیکھیںگے اور ان کے ذریعہ پتا چلائیںگے کہ یہ چیز کس کی ہو نی چاہئے۔ ان سبھوں کے ثبوت کے لئے یہ حدیث ہے۔ثم ان الاشعث ابن قیس خرج الینا فقال ما یحدثکم ابو عبد الرحمن ؟ قال محدثناہ قال فقال صدق لفیّ نزلت کانت بینی و بین رجل خصومة فی بئر فاختصمنا الی رسول اللہ ۖ فقال رسول اللہ ۖ شاھداک او یمینہ قلت انہ اذا یحلف ولا یبالی فقال رسول اللہ ۖ من حلف علی یمین یستحق بھا مالا وھو فیھا فاجر لقی اللہ وھو علیہ غضبان ثم انزل اللہ تصدیق ذلک ثم اقتراء ھذہ الآیة ان الذین یشترون بعھد اللہ وایمانھم ثمنا قلیلا اولئک لا خلاق لھم فی الآخرة ولا یکلمھم اللہ (آیت ٧٧ سورة آل عمران ٣)(الف) (بخاری شریف ،باب اذا اختلف الراھن والمرتھن ونحوہ فالبینة علی المدعی والیمین علی المدعی علیہ ص ٣٤٢ نمبر ٢٥١٥ ٢٥١٦) ابوداؤد شریف ، باب الرجل یحلف علی علمہ فیما غاب عنہ ص ١٥٤ نمبر ٣٦٢٣) اس حدیث میں ہے کہ کس طرح دعوی کرے۔یہ بھی ہے کہ مدعی پر گواہ لازم ہے اورمدعی علیہ پر قسم ہے۔اور یہ بھی ہے کہ فیصلہ کس طرح کرے۔
نوٹ کتاب الدعوی میں بھی مدعی اور مدعی علیہ کا متعین کرنا بعض مرتبہ قرائن پر ہے یا محاورات پر ہے۔اس لئے ایسے مسئلے کے لئے حدیث یا آثار نہ مل سکے ،وہاں اصول اور محاورہ پیش کردیا گیا ہے۔
]٢٧٣٠[(١)مدعی وہ ہے جو جھگڑے پر مجبور نہ کیا جا سکے اگر وہ اس کو چھوڑ دے،اور مدعی علیہ وہ ہے جو جھگڑے پر مجبور کیا جائے۔
تشریح مدعی اور مدعی علیہ کی بہت سی تعریف کی ہیں ان میں سے ایک تعریف یہ ہے کہ مدعی اس کو کہتے ہیں جو کسی سے مال لینا چاہتا ہو۔اسی لئے وہ جھگڑا کرنے پر مجبور نہیں کیا جا سکے چاہے تو جھگڑا کرکے مال لے اور چاہے تو جھگڑا چھوڑ دے۔اورمدعی علیہ اس کو کہتے ہیں جس کے قبضے میں
حاشیہ : (الف)حضرت اشعث بن قیس ہمارے پاس آئے اور فرمایا تم سے ابو عبد الرحمن کیا بیان کرتے ہیں؟ میں نے بات کا تذکرہ کیا تو فرمایا سچ فرماتے ہیں میرے ہی بارے میں یہ آیت نازل ہوئی۔میرے اور ایک آدمی کے درمیان کنویں کا جھگڑا تھا ہم حضورۖ کے پاس گئے تو آپۖ نے فرمایا یا تمہارے دو گواہ ہوں یا پھر اس سے قسم لے لو۔میں نے کہا وہ تو قسم کھا لے گا اور پرواہ بھی نہیں کرے گا۔آپۖ نے فرمایا کوئی قسم کھاکر کسی مال کا مستحق بنے اور وہ قسم کھانے میں جھوٹا ہو تو اللہ سے ملاقات کرے گا اس حال میں کہ وہ غصہ ہوں گے۔ پھر اس کی تصدیق کے لئے یہ آیت نازل ہوئی۔پھر یہ آیت پڑھی۔وہ لوگ جو اللہ کے عہد کو اور اس کی قسموں کو تھوڑی سی قیمت کے بدلے خریدتے ہیں ان کے لئے آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہے اور نہ ان سے اللہ بات کریں گے۔