( کتاب السیر )
]٢٩٨٠[(١)الجھاد فرض علی الکفایة اذا قام بہ فریق من الناس سقط عن الباقین وان لم
( کتاب السیر )
ضروری نوٹ سیر سیرة کی جمع ہے۔اس کا ترجمہ ہے عادت،اخلاق۔لیکن اب سیر بولتے ہیں اس بات پر کہ جہاد کب واجب ہوگا۔ کس کے ساتھ واجب ہے۔اور جہاد میں کفار کے ساتھ کیا معاملہ کریں اس کو سیر کہتے ہیں۔ جہاد کی دو قسمیں ہیں۔جہاد اقدامی اور جہاد دفاعی۔ اگر کافر مسلمان پر ہلہ بو ل دے تو اس کے مقابلے کے لئے نکلنے کو جہاد دفاعی کہتے ہیں۔ یہ مرد،عورت،غلام سب پر فرض عین ہو جاتا ہے۔ کیونکہ اپنی جان ، مال،عزت کو بچانا ضروری ہے۔ اور عام حالات میں جب کافر مسلمانوں پر دھاوا نہ بولا ہو تو جہاد فرض کفایہ ہے۔ کچھ لوگ جہاد کریں تو باقی سے فرض ساقط ہو جائے گا۔ جہاد کے ثبوت کے لئے بہت سی آیتیں ہیں۔ جہاد دفاعی کے ثبوت کے لئے یہ آیت ہے۔انفروا خفافا وثقالا وجاھدوا باموالکم وانفسکم فی سبیل اللہ ذالکم خیر لکم ان کنتم تعلمون (الف) (آیت ٤١، سورة التوبة ٩) دوسری آیت میں ہے ۔یا ایھا النبی حرض المومنین علی القتال الخ (آیت ٦٥، سورة الانفال ٨) ایک اور آیت میں ہے ۔ یا ایھا الذین آمنوا ما لکم اذا قیل لکم انفروا فی سبیل اللہ اثاقلتم الی الارض ارضیتم بالحیوة الدنیا من الآخرة فما متاع الحیوة الدنیا فی الآخرة الا قلیلo الا تنفروا یعذبکم عذابا الیما ویستبدل قوما غیرکم (ب) (آیت ٣٩٣٨، سورة التوبة ٩) ان آیتوں سے معلوم ہوا کہ جہاد فرض ہے (٣) حدیث میں ہے ۔عن انس بن مالک قال: قال رسول اللہ ۖ ... والجھاد ماض منذ بعثنی اللہ الی ان یقاتل آخر امتی الدجال لا یبطلہ جور جائر ولا عدل عادل (ج) (ابوداؤد شریف، باب فی الغزو مع ائمة الجور ،ص ٣٥٠، نمبر ٢٥٣٢) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جہاد قیامت تک رہنے والا ہے۔
]٢٩٨٠[(١)جہاد فرض کفایہ ہے اگر قائم کرلیں لوگوں میں سے ایک جماعت تو ساقط ہو جائے گا باقی سے۔اور اگر کوئی بھی قائم نہ کرے تو اس کے چھوڑنے سے تمام لوگ گنہگار ہوںگے۔
وجہ (ا) آیت میں ہے کہ ایک جماعت پر جہاد فرض ہے ۔آیت یہ ہے۔وما کان المؤمنون لینفروا کافة فلولا نفر من کل فرقة منھم طائفة لیتفقھوا فی الدین ولینذروا قومھم اذا رجعوا الیھم لعلھم یحذرون (د)(آیت ١٢٢، سورة التوبة٩) اس آیت
حاشیہ : (الف)نکلے ہلکے ہونے کی حالت میں اور بوجھل ہونے کی حالت میں۔اور اللہ کے راستے میں اپنے مال اور جان سے جہاد کرو یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم جانتے ہو(ب) اے ایمان والو تم کو کیا ہو گیا؟ جب تم سے کہا جاتا ہے کہ اللہ کے راستے میں نکلوا تو تم زمین کی طرف بوجھل ہو جاتے ہو۔ کیا تم آخرت کے بدلے میں دنیوی زندگی سے راضی ہو گئے؟ پس دنیوی زندگی کا سامان آخرت کے مقابلے میں تھوڑا ہے۔اگر تم جہاد میں نہیں نکلے تو تم کو دردناک عذاب دے گااور تمہارے بدلے میں دوسری قوم لے آئے گا(ج) آپۖ نے فرمایا ۔۔۔جب سے مجھے مبعوث کیا گیا ہے اس وقت سے جہاد جاری رہے گا۔یہاں تک کہ میری امت کا آخری آدمی دجال سے قتال کرے گا۔یہ کسی ظالم کے ظلم سے یا عادل کے انصاف سے باطل نہیں ہوگا(د) مومن کے لئے اچھا نہیں ہے کہ سبھی نکل جائیں۔ایسا کیوں نہ ہو کہ ہر جماعت میں سے ایک طائفہ تفقہ حاصل کرنے کے لئے نکلیں اور اپنی قوم کو ڈرائیں جب وہ واپس لوٹیں،شاید وہ ڈر جائیں۔