Deobandi Books

شرح ثمیری شرح اردو قدوری جلد 4 - یونیکوڈ

173 - 485
( کتاب الرجوع عن الشھادة )
]٢٨٦٠[(١)اذا رجع الشھود عن شھادتھم قبل الحکم بھا سقطت شھادتھم ولا ضمان علیھم]٢٨٦١[(٢) فان حکم بشھادتھم ثم رجعوا لم یُفسخ الحکم ووجب علیھم 

(  کتاب الرجوع عن الشہادة  )
ضروری نوٹ  گواہی دے کر اس سے رجوع کرلے اس کو رجوع عن الشہادة کہتے ہیں۔ اس کا ثبوت اس حدیث میں ہے۔ حدثنی عبد اللہ بن بریدة عن ابیہ قال کنا اصحاب رسول اللہ ۖ نتحدث ان الغامدیة وماعز بن مالک لو رجعا بعد اعترافھما او قال لو لم یرجعا بعد اعترافھما لم یطلبھما وانما رجمھا عند الرابعة۔دوسری روایت میں ہے۔ حدثنی یزید بن نعیم بن ھزال عن ابیہ قال کان ماعز بن مالک یتیما ... ثم اتی النبی ۖ فذکر لہ ذلک فقال ھلا ترکتموہ لعلہ ان یتوب فیتوب اللہ علیہ (الف) (ابوداؤد شریف، باب رجم ماعز بن مالک،ص ،نمبر ٤٤٣٤ ٤٤١٩) اس حدیث میں ہے کہ حضرت ماعز زنا کے اعتراف کے بعد رجوع کر لیتے تو حد نہ لگتی۔ اس سے گواہوں کا رجوع کرنا ثابت ہوا۔
نوٹ  اس باب کے اکثر مسائل اس اصول پر ہیں کہ جس نے جس کا جتنا نقصان کیا وہ اتنے کا ذمہ دار ہو گیا۔ آیت اور اثر سے اس کی دلیلیں آگے آرہی ہیں۔
]٢٨٦٠[(١)اگر گواہ اپنی گواہی سے فیصلے سے پہلے رجوع کر جائیں تو اس کی شہادت ساقط ہو جائے گی اور ان پر ضمان لازم نہیں ہوگا .
وجہ  اوپر حدیث گزری۔ماعز بن مالک لو رجعا بعد اعترافھما...لم یطلبھما (ابوداؤد شریف،نمبر ٤٤٣٤) اس حدیث میں ہے کہ حد کا اقرار کرنے والا فیصلے کے بعد بھی رجوع کر جائے تو ان کی گواہی پر کوئی فیصلہ نہیں ہو سکے گا۔ کیونکہ دونوں شہادتیں آپس میں متعارض ہوگیں۔ اور چونکہ گواہی سے ابھی کوئی نقصان نہیں ہوا ہے اس لئے اس پر کچھ ضمان بھی لازم نہیں آئے گا (٢) اثر میں ہے۔ سألت الزھری عن رجل شھد عند الامام فاثبت الامام شھادتہ ثم دعی لھا فبدلھا اتجوز شھادتہ الاولی او الآخرة؟ قال لا شھادة لہ فی الاولی ولا فی الآخرة۔قال الشیخ وھذا فی الرجوع قبل امضاء الحکم بالاولی (ب) (سنن للبیہقی، باب الرجوع عن الشہادة ،ج عاشر ، ص ٤٢٥، نمبر ٢١١٩٥) اس اثر میں ہے کہ فیصلے سے پہلے رجوع کر جائے تو پہلی یا دوسری کسی گواہی کا اعتبار نہیں ہے۔
]٢٨٦١[(٢)پس اگر ان کی گواہی سے فیصلہ کردیا پھر وہ رجوع کئے تو فیصلہ فسخ نہیں ہوگا۔اور ان کی شہادت سے جو نقصان ہوا اس کا ضمان لازم 

حاشیہ  :  (الف)عبد اللہ بن بریدہ  اپنے باپ سے نقل کرتے ہیں کہ فرمایا ہم حضورۖ کے اصحاب حضرت غامدیہ اور حضرت ماعز کے بارے میں باتیں کرتے تھے کہ اگر وہ زنا کے اعتراف سے رجوع کر جاتے یا یوں فرمایا اعتراف کے بعد دو بارہ واپس نہ آتے تو دونوں کو نہ بلاتے کیونکہ چوتھی مرتبہ رجم فرمایا ۔دوسری روایت میںہے  پھر لوگ حضورۖ کے پاس آئے اور حضرت ماعز کا تذکرہ کیا تو آپۖ نے فرمایا ان کو چھوڑ کیوں نہ دیا؟ شاید وہ توبہ کرتا تو اللہ تعالی توبہ قبول فرما لیتے۔(ب)میں نے حضرت زہری سے پوچھا کوئی آدمی امام کے پاس گواہی دے اور امام اس کی گواہی لکھ لے۔ پھر دوبارہ بلایا جائے تو گواہی بدل دے تو اس کی پہلی گواہی صحیح مانی جائے گی  یا بعد والی ؟ فرمایا نہ اس کی پہلی گواہی مانی جائے گی نہ بعد کی۔ حضرت شیخ نے فرمایا یہ بات پہلی گواہی پر فیصلے سے پہلے کی بات ہے کہ گواہی کا اعتبار نہیں ۔

Flag Counter