( کتاب آداب القاضی )
]٢٨٨٨[(١)لاتصح ولایة القاضی حتی یجتمع فی المولّٰی شرائط الشھادة ویکون من
( کتاب آداب القاضی )
ضروری نوٹ قاضی کیسے ہو اور وہ کس طرح فیصلہ کرے اس کو آداب قاضی کہتے ہیں۔ قضا کے ثبوت کے لئے یہ آیت ہے۔ومن لم یحکم بما انزل اللہ فاولئک ھم الظالمون (الف) (آیت ٤٥ ،سورة المائدة ٥) دوسری آیت میں ہے۔وداؤد وسلیمان اذ یحکمان فی الحرث اذ نفشت فیہ غنم القوم وکنا لحکمھم شاھدین ففھمناھا سلیمان وکلا اتینا حکما وعلما (ب) (آیت ٧٨ ٧٩،سورة الانبیاء ٢١) ان دونوں آیتوں میں فیصلے کرنے کا ثبوت ہے۔حدیث میں ہے۔عن اناس من اھل حمص من اصحاب معاذ بن جبل ان رسول اللہ ۖ لما اراد ان یبعث معاذا الی الیمن قال کیف تقضی اذا عرض لک قضاء ؟ قال اقضی بکتاب اللہ ،قال فان لم تجد فی کتاب اللہ ؟ قال فبسنة رسول اللہ،قال فان لم تجد فی سنة رسول اللہ ولا فی کتاب اللہ ؟ قال اجتھد برایی ولا الو،فضرب رسول اللہ ۖ صدرہ فقال الحمد للہ الذی وفق رسول رسول اللہ لما یرضی رسول اللہ (ج) (ابو داؤد شریف، باب اجتہاد الرای فی القضاء ،ص ١٤٩،نمبر ٣٥٩٢ ترمذی شریف، باب ماجاء فی القاضی کیف یقضی ،ص ٢٤٧، نمبر ١٣٢٧ نسائی شریف، باب الحکم باتفاق اھل العلم ،ص ٧٣٢، نمبر ٥٣٩٩) اس حدیث میں قضاء کا ثبوت ہے ،اور کس ترتیب سے استدلال کرے اس کا بھی ثبوت ہے۔
]٢٨٨٨[(١)نہیں صحیح ہے قاضی بنانا یہاں تک کہ جمع ہو جائے قاضی میں شہادت کی شرطیں اور وہ اہل اجتہاد میں سے ہو۔
تشریح جس آدمی کو قاضی بنایا جارہا ہو اس میں اجتہاد کی شرطیں موجود ہوں۔مثلا عاقل،بالغ، آزاد، مسلمان اور عادل ہو۔ اور اتنا علم ہو کہ جس مسئلے میں کوئی قول نہ ہو تو اس میں اجتہاد کرسکتا ہو۔حد قذف نہ لگی ہو۔
وجہ (١) قاضی شاہد کی شہادت سے فیصلہ کرے گا تو خود قاضی میں بھی شاہد کی صفتیں ہونی چاہئے (٢) آیت میں ہے۔فجزاء مثل ما قتل من النعم یحکم بہ ذوا عدل منکم (د) (آیت ٩٥، سورة المائدة ٥) اس آیت میں ہے کہ فیصلہ کرنے والا عادل ہو(٣) اثر میں ہے ۔ قال عمر بن عبد العزیز لا ینبغی ان یکون قاضیا حتی تکون فیہ خمس آیتھن اخطاتہ کانت فیہ خللا،یکون عالما
حاشیہ : (الف)جو اللہ کے اتارے ہوئے احکامات کے مطابق فیصلہ نہیں کرے گا وہ ظالم ہے (ب) حضرت داؤد اور حضرت سلیمان علیھما السلام جب فیصلہ کر رہے تھے کھیتی کے بارے میں جب گھس پڑی اس میں قوم کی بکریان اور ہم ان کے فیصلے کو دیکھ رہے تھے۔ تو ہم نے فیصلہ حضرت سلیمان کو سمجھایا اور دونوں ہی کو علم اور حکمت دیا (ج) حضورۖ نے جب معاذ کو یمن بھیجنے کا ارادہ کیا تو پوچھا جب تمہارے سامنے قضا کا معاملہ پیش آئے تو کیسے فیصلہ کروگے ؟ فرمایا میں اللہ کی کتاب سے فیصلہ کروں گا۔ پوچھا اگر کتاب اللہ میں نہ ہو تو؟ فرمایا سنت رسول اللہ سے فیصلہ کرں گا۔ پوچھا اگر سنت رسول اللہ اور کتاب اللہ میں نہ پاؤ تو ؟ فرمایا اپنی رائے سے اجتہاد کروں گا اور کمی نہیں کروں گا ۔تو حضورۖ نے خوشی سے ان کے سینے پر مارا اور فرمایا ،الحمد للہ ! جس نے رسول اللہ کے قاصد کو ایسی باتوں کی توفیق دی جس سے رسول اللہ راضی ہے(د) جس جانور کو قتل کیا اس کا چوپائے کے ذریعہ برابر بدلہ ہے ،اس کا دو عادل آدمی فیصلہ کرے۔