Deobandi Books

شرح ثمیری شرح اردو قدوری جلد 4 - یونیکوڈ

210 - 485
( کتاب القسمة )
]٢٩٣٢[(١)ینبغی للامام ان ینصب قاسما یرزقہ من بیت المال لیقسم بین الناس بغیر 

(  کتاب القسمة  )
ضروری نوٹ  کسی مال یا جائداد کو تقسیم کرنے کو 'قسمة' کہتے ہیں۔اس کا ثبوت اس آیت میں ہے ۔واذا حضر القسمة اولوا القربی والیتٰمٰی والمساکین فارزقوھم منہ وقولوا لھم قولا معروفا(الف) (آیت ٨، سورة النسائ٤) اس آیت میں تقسیم کرنے کا تذکرہ ہے(٢)حضورۖ نے خیبر کی زمین کو چھتیس ٹکڑوں میں تقسیم فرمایا تھا۔حدیث یہ ہے۔ان رسول اللہ ۖ لما ظھر علی خیبر قسمھا علی ستة وثلاثین سھما جمع کل سھم مائة سھم فکان لرسول اللہ ۖ وللمسلیمن النصف من ذلک وعزل النصف الباقی لمن نزل بہ من الوفود والامور ونوائب الناس (ب) (ابو داؤد شریف، باب ماجاء فی حکم ارض خیبر ، ج٢، ص ٦٨، نمبر ٣٠١٢) اس حدیث میںخیبر کی زمین کی تقسیم کا تذکرہ ہے (٣) دوسری حدیث میں ہے کہ آپۖ نے مال غنیمت تقسیم فرمائی ۔عن عبایة بن رفاعة بن رافع بن خدیج عن جدہ قال کنا مع النبی ۖ بذی الحلیفة ... ثم قسم فعدل عشرة من الغنم ببعیر (ج) (بخاری شریف، باب قسمة الغنم، ص ٣٣٨، نمبر ٢٤٨٨) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مشترکہ مال کو تقسیم کرنا جائز ہے۔
نوٹ  کتاب القسمة کے بہت سے مسائل اصول پر متفرع ہیں اس لئے وہاں حدیث یا قول صحابی کم ہے۔
]٢٩٣٢[(١) امام کے لئے مناسب ہے کہ وہ تقسیم کرنے والا مقرر کرے جس کی تنخواہ بیت المال سے ہو۔ تاکہ وہ لوگوں کے درمیان بغیر اجرت کے تقسیم کرے۔
تشریح  لوگوں کے اموال اور وراثت کو تقسیم کرنا بھی ایک بہت بڑا کام ہے۔اس لئے قاضی کی طرح قاسم بھی امام مقرر کرے۔ اور جس طرح قاضی کی تنخواہ بیت المال سے دی جاتی ہے قاسم کی تنخواہ بھی بیت المال سے مقرر کرے تاکہ لوگوں کے اموال کو بلا اجرت تقسیم کر سکے۔
وجہ  اثر میں ہے۔ولم یر ابن سیسین باجر القسام بأسا ،وقال السحت الرشوة فی الحکم وکانوا یعطون علی الخرص (د) (بخاری شریف، باب ما یعطی فی الرقیة علی احیاء العرب بفاتحة الکتاب ،کتاب الاجارة، ص ٣٠٤، نمبر ٢٢٧٦ مصنف عبد الرزاق، باب الاجر علی تعلیم الغلمان وقسمة الاموال ،ج ثامن ، ص ١١٥، نمبر ١٤٥٣٥) اس اثر سے معلوم ہوا کہ اجرت دے کر قاسم متعین کرنا جائز ہے (٣) اوپر ابو داؤد کی حدیث گزری جس میں تھا۔وعزل النصف الباقی لمن نزل بہ من الوفود والامور ونوائب الناس(ابوداؤد 

حاشیہ  :  (الف) اگر تقسیم کے وقت رشتہ دار اور یتیم اور مسکین حاضر ہوں تو ان کو کچھ رزق دو اور ان کو مناسب بات کہو (ب) حضورۖ نے جب خیر کو فتح کیا تو اس کو چھتیس حصوں میں تقسیم فرمائی۔ہر حصے میں سو سو حصے تھے، پس حضور اور مسلمانوں کے لئے آدھا آدھا تھا اور باقی آدھا الگ کیا جو وفود آئے اس کے لئے،اور مسلمانوں کے معاملے کے لئے اور لوگوں کے حادثوں کے لئے(ج) ہم حضورۖ کے ساتھ ذو الحلیفہ میں تھے ... پھرمال غنیمت تقسیم کی تو دس بکریوں کو ایک اونٹ کے برابر کیا(د) تقسیم کرنے والے کو اجرت دینے میں ابن سیرین نے کوئی حرج نہیں سمجھا ... اور فرمایا کرتے تھے ،سحت وہ رشوت ہے جو فیصلے کے لئے ہو جو پھل کا اندازہ کرنے کے دیا کرتے تھے۔

Flag Counter