Deobandi Books

شرح ثمیری شرح اردو قدوری جلد 4 - یونیکوڈ

229 - 485
( کتاب الاکراہ )
]٢٩٦٥[(١)الاکراہ یثبت حکمہ اذا حصل ممن یقدر علی ایقاع ما توعد بہ سلطانا کان 

(  کتاب الاکراہ  )
ضروری نوٹ  کسی آدمی پر زبردستی کرکے کسی کام کے کروانے کو اکراہ کہتے ہیں۔اس کا ثبوت اس آیت میں ہے۔من کفر باللہ من بعد ایمانہ الا من اکرہ وقلبہ مطمئن بالایمان (الف) (آیت ١٠٦، سورة النحل ١٦) دوسری آیت میں ہے۔لا تکرھوا فتیاتکم علی البغاء ان اردن تحصنا لتبتغوا عرض الحیوة الدنیا ومن یکرھہن فان اللہ من بعد اکراھھن غفور رحیم (ب) (آیت ٣٣، سورة النور ٢٤) ان دونوں آیتوں میں اکراہ کا تذکرہ ہے۔
]٢٩٦٥[(١)اکراہ کا حکم ثابت ہوتا ہے جب حاصل ہوا ہو ایسے آدمی سے جو دھمکی کے واقع کرنے پر قدرت رکھتا ہو،بادشاہ ہو یا چور۔
تشریح   ایک بچہ مارنے کی دھمکی دے تو اس سے اکراہ نہیں ہوگا بلکہ ایسا آدمی دھمکی دے جو اس کے کرنے پر قادر ہو،جیسے بادشاہ دھمکی دے کہ مار ڈالوں گا یا چور دھمکی دے کہ بیوی کو طلاق نہیں دے گا تو ہاتھ کاٹ ڈالوں گا تو اس سے اکراہ ثابت ہوگا۔
وجہ  اوپر کی آیت میں ہے کہ آقا باندی کو زنا کرنے پر مجبور کرے تو وہ اکراہ ہوگا۔ولا تکرھوا فتیاتکم علی البغاء ان اردن تحصنا (ج) (آیت ٣٣ ، سورة النور ٢٤) اثر میں ہے ۔قال عمر لیس الرجل بامین علی نفسہ اذا جوعت او او ثقت او ضربت (د) دوسری روایت میں ہے۔عن شریح قال الحبس کرہ والضرب کرہ والقید کرہ والوعید کرہ (ہ) (سنن للبیہقی ،باب ما یکون اکراھا ،ج سابع، ص ٥٨٨، نمبر ١٥١٠٧ ١٥١٠٨ مصنف عبد الرزاق ، باب طلاق الکرہ ، ج سادس، ص ٤١١، نمبر ١١٤٢٤ ١١٤٢٣) اس اثر سے معلوم ہوا کہ قید کرنا ،مارنا، حبس کرنا اور دھمکی دینا سب اکراہ کی صورتیں ہیں۔یا باندھ دے، یا بھوکا رکھے یا مارے یہ بھی اکراہ کی صورتیں ہیں۔
فائدہ  امام ابو حنیفہ کی ایک رائے یہ بھی ہے کہ اکراہ صرف بادشاہ سے ہو سکتا ہے ۔کیونکہ اسی کو قوت مانعہ ہے۔ البتہ بعض حضرات فرماتے ہیں کہ ان کے زمانے میں چوروں میں اتنی جرأت نہیں تھی اس لئے انہوں نے یہ فرمایا۔بعد میں حالات کی وجہ سے یہ جرأت پیدا ہو گئی اس لئے چوربھی طاقتور ہوتو اکراہ کر سکتا ہے۔ ان کی دلیل یہ اثر ہے۔عن الشعبی فی الرجل یکرہ علی امر من امر العتاق او الطلاق قال : اذا اکرھہ السلطان جاز، واذا اکرھتہ اللصوص لم یجز (و) (مصنف ابن ابی شیبة ، ٤٨ من کان یری طلاق المکرہ جائزا ،ج 

حاشیہ  :  (الف)جس نے ایمان کے بعد اللہ کے ساتھ کفر کیا،مگر یہ کہ مجبور کیا گیا ہو اور اس کا دل ایمان کے ساتھ مطمئن ہو (ب) اپنی باندیوں کو زنا پر مجبور نہ کرو اگر وہ پاکدامنی اختیار کرنا چاہتی ہو تا کہ تم دنیوی زندگی کے سامان کو تلاش کرو۔ اور جو باندیوں کو مجبور کرے گا تو اللہ ان کی مجبوری کی وجہ سے معاف کرنے والا ہے(ج) اپنی باندیوں کو زنا پر مجبور نہ کرو اگر وہ پاکدامنی اختیار کرنا چاہتی ہو (د) حضرت عمر نے فرمایا آدمی اپنی ذات پر امن والا نہیں ہے اگر اس کو بھوکا رکھا جائے یا باندھا جائے یا مارا جائے (ہ) حضرت شریح نے فرمایا جیل کرنا بھی مجبور کرنا ہے اور بیڑی لگانا بھی مجبور کرنا ہے اور دھمکی دینا بھی مجبور کرنا ہے (و) حضرت شعبی فرماتے ہیں کہ کوئی آدمی آزاد کرنے یا طلاق دینے پر مجبور کیا جائے ۔فرماتے ہیں کہ اگر اس کو بادشاہ مجبور کرے تو جائز ہے اور اگر اس کو چور مجبور کرے تو جائز نہیں یعنی( باقی اگلے صفحہ پر) 

Flag Counter