Deobandi Books

شرح ثمیری شرح اردو قدوری جلد 4 - یونیکوڈ

448 - 485
البنت وولد الاخت وبنت الاخ وبنت العم والخال والخالة وابو الام والعم لام والعمة وولد الاخ من الام]٣٢٤٥[(٢) ومن ادلی بھم فاولٰھم من کان من ولد المیت ثم ولد الابوین او احدِھما وھم بنات الاخوة واولاد الاخوات ثم ولد ابوی ابویہ اواحدھما وھم الاخوال والخالات والعمات]٣٢٤٦[(٣) واذا استوی ولد اب فی درجة فاولٰھم من 

اولاد ہے جن کو بھانجا یا بھانجی کہتے ہیں ۔یہ باپ ماں کی اولاد ہوئی(٣) تیسرے درجے میں بھائی کی بیٹی ہے جن کو بھتیجی کہتے ہیں ۔یہ بھی ماں باپ کی اولاد ہوئی (٤) چوتھے درجے میں چچا کی بیٹی ہے۔جس کو چچازاد بہن کہتے ہیں ۔یہ دادا کی اولاد ہوئی (٥) پانچویں درجے میں ماموں ہے۔یہ ماں کی جانب سے ہوئی جو نانا کی اولاد ہوئی (٦) چھٹے درجے میں خالہ ہے ۔یہ بھی ماں کی جانب سے ہوئی اور نانا کی اولاد ہوئی (٧) ساتویں درجے میںناناہے جو ماں کا باپ ہے (٨) آٹھویں درجے میں اخیافی چچا ہے جو باپ کا ماں شریک بھائی ہے (٩) نویں درجے میں پھوپھی ہے جو باپ کی بہن ہے (١٠) دسویں درجے میں اخیافی بھائی کی اولاد ہے۔جس کو ماں شریک بھائی کی اولاد یعنی بھتیجا بھتیجی کہتے ہیں۔
وجہ  یہ درجے اس لئے متعین کئے گئے ہیں تاکہ قریب والے کو پہلے ملے اور دور والے کو بعد میں ملے(٢) اس اثر میں اس کا اشارہ ہے۔عن علی وزید قالا فی الجدات السھم لذوی القربی منھن (الف) (مصنف ابن ابی شیبة ،٦٣ من کان یقول اذا اجتمع الجدات فھو للقربی منھن ، ج سادس، ص ٢٧٣، نمبر ٣١٢٨٧) اس اثر میں ہے کہ جو زیادہ قریب ہو اس کو پہلے دو۔
]٣٢٤٥[(٢)اور جو ان سے متعلق ہوں تو ان میں سے زیادہ بہتر وہ ہے جو میت کی اولاد ہو ،پھر وہ جو ماں باپ کی یا ان میں سے ایک کی اولاد ہو۔اور وہ بھتیجیاں اور بہنوں کی اولاد ہیں، پھر والدین کے والدین کی اولاد یا ان میں سے ایک کی اولاد اور وہ ماموں اور خالائیں اور پھوپھیاں ہیں۔
تشریح   اس مسئلے میں ذوی الارحام کی ترتیب بتائی جا رہی ہے کہ ذوی الارحام میں سب سے مقدم وہ ہیں جو میت کی اولاد ہو جیسے نواسا اور نواسی،پھر ماں باپ کی اولاد کی اولاد جیسے بھانجا ،بھانجی،یا بھتیجی۔پھر ماں باپ کے باپ کی اولاد جیسے چچازاد بہن، ماموں ، خالہ، پھوپھی۔ ان لوگوں کو اسی ترتیب سے حصے ملیںگے۔
اصول  میت کی اولاد کی اولاد (٢) پھر باپ کی اولاد کی اولاد (٣) پھر دادا دادی یا نانا نانی کی اولاد (٤) یا ان کی اولاد کی اولاد ذی رحم کے اعتبار سے مستحق ہوگی۔اس اصول کی دلیل یہ آیت ہے۔واولوا الارحام بعضھم اولی ببعض فی کتاب اللہ (ب) (آیت ٧٥، سورة الانفال ٨) اس آیت میں بعض ذوی الارحام کو بعض سے اولی بتلایا گیا ہے۔ 
]٤٦٣٢[(٣)اگر باپ کی اولاد درجے میں برابر ہوں تو ان میں سے اولی وہ ہے جو میت کے زیادہ قریب ہو کسی وارث کے ذریعہ۔اور قریب 

حاشیہ  :  (الف) حضرت علی اور زید نے دادیوں کے بارے میں فرمایا ان کا حصہ ان کے قریب کے رشتہ داروں کو ملے گا(ب) ذی رحم بعض بعض سے اولی ہے کتاب اللہ میں۔

Flag Counter