Deobandi Books

شرح ثمیری شرح اردو قدوری جلد 4 - یونیکوڈ

447 - 485
( باب ذوی الارحام )
]٣٢٤٤[(١)واذا لم یکن للمیت عصبة ولا ذوسھم ورثُہ ذووالارحام وھم عشرة ولد 

(  باب ذوی الارحام  )
ضروری نوٹ  وہ قریبی رشتہ دار جو نہ حصے والے ہوں اور نہ عصبہ ہوکہ حصہ لینے کے بعد یہ تمام مال جمع کر لے ان کو ذوی الارحام کہتے ہیں۔اگر سہام والے بھی ہوں اور عصبہ بھی نہ ہوں تو مال ذوی الارحام کو دیا جائے گا۔اسکا ثبوت اس آیت میں ہے۔واولوا الارحام بعضھم اولی ببعض فی کتاب اللہ ان اللہ بکل شیء علیم (الف) (آیت ٧٥، سورة الانفال ٨) اس آیت میں ہے کہ ذوی الارحام وراثت کے لئے زیادہ بہتر ہے۔اس لئے عصبہ نہ ہوتو بیت المال میں داخل کرنے کے بجائے ذوی الارحام کو دیا جائے گا(٢) حدیث میں ہے۔عن المقدام قال قال رسول اللہ ۖ ... والخال وارث من لا وارث لہ یعقل عنہ ویرثہ (ب) (ابوداؤد شریف، باب ماجاء فی میراث ذوی الارحام ، ص ٣٠، نمبر ٢٨٩٩ترمذی شریف،باب ماجاء فی میراث الخال،ص ٣٠، نمبر ٢١٠٣) اس حدیث میں ہے کہ کوئی وارث نہ ہوتو ماموں وارث ہے۔اور ماموں ذوی الارحام میں سے ہیں۔جس سے معلوم ہوا کہ ذوی الارحام وارث ہوںگے۔
فائدہ  عبد اللہ بن مسعود کی رائے ہے کہ عصبہ نہ ہو تو ذوی الارحام کو نہ دیا جائے بلکہ بیت المال میں داخل کردیا جائے۔ان کا اثر یہ ہے۔عن مسروق قال اتیت عبد اللہ یعنی ابن مسعود فقلت ان رجلا کان فینا نازلا فخرج الی الجبل فمات وترث ثلث مائة درھم فقال عبد اللہ ھل ترک وارثا او لاحد منکم علیہ عقد ولاء ؟ قلت لا قال لہ ھھنا ورثة کثیر فجعل مالہ فی بیت المال (ج) (سنن للبیہقی ، باب من جعل میراث من لم یدع وارثا ولا مولی فی بیت المال ، ج سادس، ص ٣٩٩، نمبر ١٢٤٠٤ مصنف ابن ابی شیبة، ٦٨ من قال للملاعنة الثلث ومابقی فی بیت المال ، ج سادس، ص ٢٧٦، نمبر ٣١٣١٤ ) اس اثر سے معلوم ہوا کہ عصبہ نہ ہو تو مال بیت المال میں داخل کردیا جائے تاکہ عام مسلمانوں کو مل جائے۔
]٣٢٤٤[(١)اگر میت کا عصبہ نہ ہو اور نہ ذوی الفروض ہو تو اس کے وارث ہوںگے ذوی الارحام اور وہ دس ہیں۔(١) بیٹی کی اولاد (٢) بہن کی اولاد (٣) بھائی کی بیٹی (٤)چچا کی بیٹی (٥) ماموں (٦)خالہ (٧) نانا (٨) اخیافی چچا (٩) پھوپھی (١٠) اخیافی بھائی کی اولاد۔
تشریح   یہ دس قسم کے آدمی ذوی الارحام ہیں جن کو حصے دار اور عصبہ نہ ہونے پر میت کا مال بالترتیب ملتا ہے۔ اس میں پہلا بیٹی کی اولادہے جس کونواسا یا نواسی کہتے ہیں ۔یہ لوگ میت کی اولاد ہے جن کو پہلے دیاجائے گا۔ وہ نہ ہوتو اس کے بعد والے کو ملے گا (٢) اس کے بعد بہن کی 

حاشیہ  :  (الف) ذی رحم بعض بعض سے بہتر ہے اللہ کی کتاب میں یقینا اللہ ہر چیز کو جانتا ہے (ب) آپۖ نے فرمایاجس کا وارث نہیں ہے ماموں اس کا وارث ہے۔ماموں بھانجے کی دیت بھی دے گا اور وارث بھی ہوگا (ج) حضرت مسروق فرماتے ہیں میںعبد اللہ بن مسعود کے پاس آیا ار کہا کہ ایک آدمی ہمارے پاس مہمان آیا وہ پہاڑ کی طرف گیا اور مر گیا اور تین سو درہم چھوڑے۔حضرت عبد اللہ نے پوچھا کوئی وارث چھوڑا ؟ یا تمہارا اس پر کوئی عقد ولاء تھا؟ میں نے کہا نہیں۔فرمایا یہاں اس کے وارث بہت ہیں ۔اس کے مال کو بیت المال میں رکھ دو۔

Flag Counter