Deobandi Books

شرح ثمیری شرح اردو قدوری جلد 4 - یونیکوڈ

445 - 485
وقال ابو یوسف ومحمد رحمھما اللہ تعالی یقاسمھم الا ان تنقصہ المقاسمةمن الثلث]٣٢٤٠[(١٢) واذا اجتمع الجدات فالسدس لاقربھن۔ 
 
لہ الثلث مع الاخوین وما کانت المقاسمة خیر لہ قاسم ولا ینفص من السدس فی جمیع المال (الف) دوسری روایت میں ہے۔وحضرت الخلیفتین قبلک ،یرید عمر و عثمان یقضیان للجد مع الاخ الواحد النصف ومع الاثنین الثلث فاذا کانوا اکثر من ذلک لم ینقص من الثلث شیئا (ب) (مصنف عبد الرزاق ، باب فرض الجد ، ج عاشر ص ٢٦٦، نمبر ١٩٠٦١ ١٩٠٦٢)مصنف ابن ابی شیبة ، ٤٤ اذا ترک اخوة وجدا واختلافھم فیہ ،ج سادس، ص ٢٦٢، نمبر ٣١٢١٥)اس اثر سے معلوم ہوا کہ دادا کو بھائی کا آدھا تقسیم کرکے دیا جائے گا۔البتہ تقسیم کرنے میں تہائی سے کم ہو تو دادا کو تہائی دی جائے گی۔کیونکہ دوسرے اثر میں ہے لم ینقص من الثلث شیئا کہ تہائی سے کم نہ کیا جائے۔
لغت  یقاسم  :  باب مفاعلت سے ہے آپس میں تقسیم کرنا۔
]٣٢٤٠[(١٢)اگر کئی دادیاں جمع ہو جائیں تو چھٹا حصہ ان کے قریب والی کے لئے ہوگی ۔
تشریح   مثلا دادی بھی ہے اور پردادی بھی ہے نانی بھی ہے اور پر نانی بھی ہے ایسی صورت میں جو دادی یا نانی قریبی ہے اس کو چھٹا حصہ ملے گا اور جو دور کی ہے اس کو نہیں ملے گا۔،مثلا دادی ہے اور پرنانی ہے تو دادی کو چھٹاحصہ ملے گااور پر نانی کو کچھ نہیں ملے گا۔ کیونکہ وہ دور کی نانی ہے۔ 
وجہ  اثر میں ہے۔عن الحسن انہ کان یورث ثلاث جدات ویقول ایتھن کانت اقرب فھو لھا دون الاخری فاذا استوتا فھو بینھما (ج) (مصنف ابن ابی شیبة ،٦٢ فی الجدات لم ترث منھن ،ج سادس، ص ٢٧٢، نمبر ٣١٢٧٥ مصنف عبد الرزاق ، باب فرض الجدات ، ج عاشر، ص ٢٧٦، نمبر ١٩٠٨٩) اس اثر سے معلوم ہوا کہ جو دادی یا نانی قریب ہو اس کو ملے گا۔اور اگر دونوں برابر درجے کے ہوں تو چھٹا حصہ دونوں میں تقسیم ہوگا۔
وجہ  اثر میں ہے۔ ثم جاء ت الجدة الاخری الی عمر بن الخطاب تسألہ میراثھا ... وما انا بزائد فی الفرائض ولکن ھو ذلک السدس فان اجتمعتما فیہ فھو بینکما وایتکما ماخلت بہ فھو لھا (د) (ابوداؤد شریف، باب فی الجدة ، ص ٤٥، 

حاشیہ  :   (الف)حضرت عمر دادا اور بھائی کو شریک کرتے اگر دونوں کے علاوہ نہ ہوتا۔اور دادا کے لئے دوبھائیوں کے ساتھ تہائی ہوتی ۔اور اگر تقسیم کرنا بہتر ہوتا تو تقسیم کرتے پھر بھی تمام مال میں چھٹے سے کم نہ کرتے(ب) آپ سے پہلے دو خلیفہ گزرے یعنی حضرت عمر اور عثمان ۔دونوں دادا کے لئے ایک بھائی کے ساتھ آدھے کا فیصلہ کرتے تھے اور دو بھائیوں کے ساتھ ایک تہائی کا ۔اور اگر اس سے زیادہ بھائی ہوتے تب بھی تہائی سے کم نہیں کرتے(ج) حضرت حسن فرماتے ہیں کہ تین دادیاں وارث ہو سکتی ہیں۔ اور جو بھی میت کے قریب ہو وراثت اس کے لئے ہوگی دوسرے کے لئے نہیں ۔ اور دونوں دادیاں برابر درجے کی ہوں تو دونوں کے درمیان ہوگی (د) پھر دوسری دادی حضرت عمر کے پاس آکر وراثت مانگنے لگی ... فرمایا میں فرائض میں زیادہ کرنے والا نہیں ہوں لیکن یہ چھٹا ہے اگر تم دونوں جمع ہو جاؤ۔

Flag Counter