Deobandi Books

شرح ثمیری شرح اردو قدوری جلد 4 - یونیکوڈ

443 - 485
دینھم ]٣٢٣٧[(٩) وعصبة ولد الزنا وولد الملاعنة مولی امھما]٣٢٣٨[(١٠) ومن مات وترک حملا وُقف مالہ حتی تضع امرأتُہ حملھا فی قول ابی حنیفة رحمہ اللہ 

المجوس کیف یرثون مجوسیا مات وترک ابنتہ ،ج سادس، ص ٢٨٤، نمبر ٣١٤١٢  ٣١٤١٦)اس اثر میں ہے کہ حلال طریقے سے نکاح کیا ہوتو اسی سے وارث ہوںگے ورنہ نہیں ۔
]٣٢٣٧[(٩)ولد الزنا اور ولد ملاعنہ کا عصبہ ان دونوں کی ماں کے رشتہ دار ہیں ۔
تشریح   زنا سے جو بچہ پیدا ہوا ہے شرعی اعتبار سے اس کا باپ نہیں ہے۔یا جس عورت سے باپ نے لعان کر لیاتو اس بچے کا رشتہ باپ سے ختم ہوگیا۔اب وہ باپ ہی نہیں رہا۔اس لئے نہ باپ وارث ہوگا اور نہ باپ کے رشتہ دار وارث ہوں گے۔ بلکہ اس کا تعلق ماں کے ساتھ ہوگیا۔ اس لئے ماں وارث ہوگی اور ماں کے رشتہ دار وارث ہوں گے۔اور یہ لڑکا ماں کا وارث ہوگا اور ماں کی جانب سے جو رشتہ دار ہیں ان کا وارث ہوگا۔
وجہ  حدیث میں اس کا ثبوت ہے۔ حدثنا مکحول قال جعل رسول اللہ ۖ میراث ابن الملاعنة لامہ ولورثتھا من بعدھا(الف) (ابوداؤد شریف، باب میراث ابن الملاعنة ،ص ٤٧، نمبر ٢٩٠٧) (٢) بخاری میں اس طرح ہے۔ عن ابن عمر ان رجلا لاعن امرأتہ فی زمن النبی ۖ وانتفی من ولدھا ففرق النبی ۖ بینھما والحق الولد بالمرأة (ب) (بخاری شریف ، باب میراث الملاعنة ، ص ٩٩٩، نمبر ٦٧٤٨) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جس عورت سے لعان کیا اس عورت کا وہ بچہ باپ کا وارث نہیں ہوگا۔اور نہ باپ اس کا وارث ہوگا۔بلکہ عورت بچے کا وارث ہوگی اور بچہ ماں کا وارث پوگا۔
اور زنا سے پیدا شدہ بچے کے بارے میں یہ حدیث ہے۔ عن عمر بن شعیب عن ابیہ عن جدہ ان رسول اللہ ۖ قال ایما رجل عاھر بحرة او امة فالولد ولد زنا لا یرث ولا یورث (ج) (ترمذی شریف، باب ماجاء فی ابطال میراث ولد الزنا ،ص ٣١، نمبر ٢١١٣) اس حدیث میں ہے کہ باپ کو نہ لڑکے کی وراثت ملے گی اور نہ لڑکا باپ کا وارث ہوگا۔
لغت  ملاعنة  :  وہ عورت جس نے زنا کی تہمت کی وجہ سے شوہر سے لعان کیا،  مولی  :  آقا،یہاں ماں کے رشتہ دار مراد ہیں۔
]٣٢٣٨[(١٠)کسی کا انتقال ہوا اور حمل چھوڑا تو اس کا مال موقوف رہے گا۔یہاں تک کہ اس کی بیوی حمل جن دے امام ابو حنیفہ کے قول میں۔
تشریح   ایک آدمی کا انتقال ہوا اس وقت اس کی بیوی حاملہ تھی۔تو اس حمل کو بھی باپ کی وراثت ملے گی۔اس لئے اگر یہی ایک بچہ ہے تو ابھی وراثت تقسیم نہیں کی جائے گی۔بلکہ وضع حمل کے بعد وراثت تقسیم ہوگی۔اور اگردوسری اولاد بھی موجود ہے تو اس حمل کو لڑکا مان کر اس کا حصہ الگ رکھ لیا جائے گا۔کیونکہ لڑکے کا حصہ زیادہ ہو تا ہے اور لڑکی کا کم ۔پس اگر لڑکی کا حصہ مان کر باقی مال تقسیم کردیا جائے اورلڑکا پیدا ہوجائے تو 

(١لف) حضور نے لعان والی عورت کے بیٹے کی میراث اس کی ماں کے لئے کیا اور جو اس کے بعد ورثہ ہیں ان کے لئے کیا (ب) حضرت ابن عمر فرماتے ہیں کہ ایک آدمی نے حضورۖ کے زمانے میں ایک عورت سے لعان کیا اور اس کے بچے کو اپنے سے نفی کی تو حضورۖ نے دونوں کے درمیان تفریق کی اور بچے کو عورت کے ساتھ ملا دیا۔ (ج) آپۖ نے فرمایا کسی مرد نے آزاد یا باندی کے ساتھ زنا کیا تو بچہ زنا کا ہوگا۔باپ نہ اس کا وارث ہوگا اور نہ وہ باپ کا وارث ہوگا۔

Flag Counter