Deobandi Books

شرح ثمیری شرح اردو قدوری جلد 4 - یونیکوڈ

441 - 485
]٣٢٣٢[ (٤)ولایرث المسلمُ الکافرَ ولا الکافرُ المسلمَ ]٣٢٣٣[(٥) ومال المرتد لورثتہ المسلمین وما اکتسبہ فی حال رِدَّتِہ فیئ ]٣٢٣٤[ (٦) واذا غرق جماعة او سقطت علیھم حائط فلم یُعلم من مات منھم اوَّلا فمال کل واحد منھم للاحیاء من ورثتہ 

]٣٢٣٢[(٤)مسلمان کافر کا اور کافر مسلمان کا وارث نہیں ہوگا۔
وجہ  اوپر حدیث گزری کہ دو مذہب والے ایک دوسرے کے وارث نہیں ہونگے۔یہاں تو کفر اور اسلام بالکل الگ الگ مذہب ہے اس لئے کسی حال میں وارث نہیں ہوگا (٢) حدیث میں ہے۔عن اسامة بن زید ان النبی ۖ قال لا یرث المسلم المکافر ولا الکافر المسلم (الف) (بخاری شریف، باب لایرث المسلم الکافر ولا الکافر المسلم ، ص ١٠٠١، نمبر ٦٧٦٤ ابو داؤد شریف، باب ہل یرث المسلم الکافر ،ج ٢، ص ٤٧، نمبر ٢٩٠٩) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مسلمان کافر کا اور کافر مسلمان کا وارث نہیں ہوگا۔
]٣٢٣٣[(٥)مرتد کا مال اس کے مسلمان ورثہ کا ہوگا۔اور جو کچھ کمایا مرتد کی حالت میں وہ غنیمت ہے۔
تشریح   مرتد چونکہ کافر ہو چکا ہے اس لئے حالت ارتداد میں جو کچھ کمایا اس کا وارث مسلمان نہیں ہوسکتا کیونکہ اوپر گزر چکا ہے کہ مسلمان کافر کا وارث نہیں ہوسکتا۔البتہ اسلام کی حالت میں جو کچھ کمایا اس کا وارث مسلمان ہوگا۔کیونکہ دونوں کا مذہب ایک ہے۔ 
وجہ  اثر میں ہے۔عن علی انہ اتی بمستورد العجلی وقد ارتد فعرض علیہ الاسلام فابی فقتلہ وجعل میراثة بین ورژتہ من المسلمین (ب) (مصنف ابن ابی شیبة ، ٨٠ فی المرتد عن الاسلام ، ج سادس، ص ٢٨١،نمبر ٣١٣٧٥ مصنف عبد الرزاق ، باب میراث المرتد ، ج عاشر ،ص ٣٣٩۔ نمبر ١٩٢٩٦) اس اثر سے معلوم ہوا کہ مرتد کا اسلام کے زمانے میں کمایا ہوا مال مسلمان ورثہ کے درمیان تقسیم ہوگا۔ اورکفر کے زمانے کا مال گویا کہ حربی کا مال ہوا اس لئے وہ فیٔ شمار کیا جائے گا۔
]٣٢٣٤[(٦)اگر ایک جماعت ڈوب گئی یا ان پر دیوار گر گئی اور معلوم نہیں ہوا کہ ان میں سے کون پہلے مرا تو ان میں سے ہر ایک کا مال اس کے زندہ ورثہ کے لئے ہوگا۔
تشریح   ایک جماعت کے لوگ آپس میں رشتہ دار تھے اور ایک دوسرے کے وارث تھے۔سبھی کشتی میں ڈوب کر مر گئے۔یہ معلوم نہیں ہوا کہ کون پہلے مرا اور کون بعد میں۔تو ایسی صورت میں وہ لوگ آپس میں وارث نہیں ہوںگے۔بلکہ جو لوگ زندہ ہیں وہ لوگ وارث ہوںگے۔ 
وجہ  عن عمر بن عبد العزیز انہ کان یورث الاحیاء من الاموات ولا یورث الغرقی بعضھم من بعض (ج) مصنف ابن ابی شیبة ،٤٧ من قال یرث کل واحد منھم وارثہ من الناس ولا یورث بعضھم من بعض ، ج سادس، ص ٢٧٨، نمبر ٣١٣٤٠ الدارمی ،باب میراث الغرقی ، ج ثانی ، ص ٤٧٣، نمبر ٣٠٤٤)اس اثر سے معلوم ہوا کہ غرق ہونے والے ایک دوسرے کے مالک نہیں ہوںگے بلکہ ان کے بعد جو 

حاشیہ  :  (الف)آپۖ نے فرمایا مسلمان کافر کا اور کافر مسلمان کا وارث نہیں ہوگا(ب) حضرت علی کے سامنے مستورد عجلی لایا گیا وہ مرتد ہوگیا تھا۔پس اس پر اسلام پیش کیا گیا، اس نے انکار کردیا تو اسکو قتل کردیا اور اس کی میراث مسلمان ورثہ کے درمیان تقسیم کردی(ج)عبد العزیز فرماتے ہیں زندہ آدمی مردوں کا وارث ہوگا۔لیکن ڈوبے ہوئے آدمی بعض بعض کے وارث نہیں ہوںگے۔

Flag Counter