Deobandi Books

شرح ثمیری شرح اردو قدوری جلد 4 - یونیکوڈ

406 - 485
]٣٢٠٧[(٩) والثلث للام اذا لم یکن للمیت ولد ولا ولدابن ولا اثنان من الاخوة و 

بہنیں دو ہو یا دو سے زیادہ ہوں تو ان کے لئے دو تہائی ہیں۔
(٤) ماں باپ شریک بہنیں نہ ہو تو صرف باپ شریک بہنوں کا وہی درجہ ہوگاجو ماں باپ شریک بہنوں کا درجہ ہے۔اس لئے باپ شریک بہنیں دو ہوں تو ان کو دو تہائی ملے گی۔
وجہ  دلیل اوپر کی آیت ہے۔
نوٹ  شوہر کو بھی آدھا ملتا ہے لیکن چونکہ بیک وقت دو شوہر نہیں ہوسکتے اس لئے ان کو دو تہائی دینے کا سوال نہیں ہوتا۔
]٣٢٠٧[(٩)ماں کے لئے تہائی ہے اگر میت کا بیٹا نہ ہو اور نہ پوتا ہو اور نہ دو بھائی ہوں اور نہ دو بہنیں ہوں یا اس سے زائد۔
تشریح   چار قسم کے آدمیون کو تہائی ملے گی(١) میت کی ماں ہو اور بیٹا یا پوتا یا دو بھائی یا دو بہنیں نہ ہوں تو مان کو ایک تہائی ملے گی۔اور اگر میت کو ماں ہو اور بیٹا ہو یا پوتا ہو یا دو بھائی ہوں یا دو بہنیں ہوں تو مان کو چھٹا حصہ ملے گا۔
وجہ  دونوں باتوں کا ثبوت اس آیت میں ہے۔ ولابویہ لکل واحد منھما السدس مما ترک ان کان لہ ولد فان لم یکن لہ ولد وورثہ ابواہ فلامہ الثلث فان کان لہ اخوة فلامہ السدس من بعد وصیة یوصی بھا او دین (الف) (آیت ١١، سورة النسائ٤) اس آیت میں ہے کہ بیٹا یا پوتا یا دو بھائی یا دو بہنیں نہ ہوں تو مان کے لئے تہائی ہے۔ اور اگر یہ لوگ ہوں تو ماںکے لئے چھٹا حصہ ہے۔اس آیت میں ولد سے بیٹا اور وہ نہ ہوتو پوتا مراد ہے۔اسی طرح اخوة جمع کا صیغہ ہے جس کا ترجمہ دو بھائی اور اسی میں دو بہنیں بھی داخل ہیں (٢) اثر میں اس کا ثبوت ہے۔ان معانی ھذہ الفرائض واصولھا عن زید بن ثابت واما التفسیر فتفسیر ابی الزناد علی معانی زید قال ومیراث الام من ولدھا اذا توفی ابنھا وابنتھا فترک ولدا او ولد ابن ذکرا او انثی او ترک الاثنین من الاخوة فصاعدا ذکورا او اناثا من اب وام او من اب او من ام السدس،فان لم یترک المتوفی ولدا ولا ولد ابن ولا اثنین من الاخوة فصاعدا فان للام الثلث کاملا الا فی فریضتین فقط وھما ان یتوفی رجل ویترک امرأتہ وابویہ فیکون لامرأتہ الربع ولامہ الثلث مما بقی وھو الربع من رأس المال،وان تتوفی امرأة وتترک زوجھا وابویھا فیکون لزوجھا النصف ولامھا الثلث مما بقی وھو السدس من رأس المال (ب)(سنن للبیہقی، باب فرض الام ،ج سادس، 

حاشیہ  :  (الف)ماں باپ میں سے ہر ایک کے لئے ترکے میں سے چھٹا ہے اگر میت کی اولاد ہو۔اور اگر اولاد نہ ہو تو والدین وارث ہوںگے تو ماں کے لئے تہائی ہے۔ اور اگر میت کو بھائی ہو تو ماں کے لئے چھٹا ہے وصیت اور قرض کی ادائیگی کے بعد (ب) ان فرائض کے معانی اور اس کے اصول زید بن ثابت سے منقول ہے۔اور تفسیر ابی الزناد کی ہے۔حضرت زید نے فرمایا بچے سے ماں کی میراث جب اس کا بیٹا یا بیٹی انتقال کر جائے اور اولاد چھوڑی یا بیٹے کی اولاد چھوڑی مذکر ہو یا مؤنث یا دو بھائی چھوڑے یا حقیقی بہن چھوڑی یا باپ شریک یا ماں شریک بہن تو ماں کے لئے چھٹا ہے۔ اور اگر متوفی نے نہ اولاد چھوڑی نہ بیٹے کی اولاد چھوڑی نہ دو بھائی بہن تو ماں کے لئے پوری کی تہائی ہے مگر دو موقع پر صرف۔ وہ کہ آدمی انتقال کرے اور بیوی اور والدین چھوڑے تو بیوی کے لئے چوتھائی اورماں کے لئے ما بقی کی تہائی اور وہ پورے مال کی چوتھائیہے۔اور دوسری صورت یہ ہے کہ عورت مرے اور شوہر اور والدین چوڑے تو شوہر کے لئے آدھا اور ماں کے لئے ما بقی کی تہائی اور وہ پورے مال کا چھٹا ہے۔

Flag Counter