]٣١٩٢[(٥٥) فان مات الموصٰی لہ عاد الی الورثة]٣١٩٣[(٥٦) وان مات الموصٰی لہ فی حیوة الموصی بطلت الوصیة ]٣١٩٤[(٥٧)واذا اوصٰی لولد فلان فالوصیة بینھم
اور اگر صرف یہی غلام موصی کی ملکیت ہے تب تو غلام کی دو تہائی خدمت ورثہ کے لئے ہے اور ایک تہائی خدمت موصی لہ کے لئے ہے۔ اس لئے دو دن ورثہ کی خدمت کرے گا اور ایک دن موصی لہ کی خدمت کرے گا۔
]٣١٩٢[(٥٥)پس اگرموصی لہ مر گیا تو غلام لوٹ آئے گا ورثہ کی طرف۔
تشریح مثلا تین سال کی خدمت کے لئے وصیت کی تھی اور موصی لہ دو سال میں انتقال کرگیا توغلام وصیت کرنے والے کے ورثہ کی طرف لوٹ آئے گا۔
وجہ (ا) موصی لہ کی خدمت کے لئے وصیت کی تھی اور وہی نہیں رہا تو کس کی خدمت کرے گا؟ اس لئے غلام موصی کے ورثہ کی طرف لوٹ آئے گا(٢) عین غلام کی وصیت نہیں ہے بلکہ اس کی خدمت کی وصیت ہے۔اور موصی لہ کے وارث خدمت لیں گے تو مطلب یہ ہوا کہ غلام کی خدمت کی وراثت ہوئی۔ پس جب غلام کی وراثت نہیں ہوسکتی ہے تو اس کی خدمت کی وراثت کیسے ہوگی ؟ اس لئے غلام وصیت کرنے والے کے ورثہ کی طرف لوٹ آئے گا۔
اصول یہ اس اصول پر ہے کہ عین کی وراثت نہیں تو اس کے نفع کی بھی وراثت نہیں ہوگی۔
]٣١٩٣[(٥٦)اور اگر موصی لہ موصی کی زندگی میں مر گیاتو وصیت باطل ہوجائے گی۔
وجہ پہلے قاعدہ گزرا ہے کہ موصی کے مرنے کے بعد موصی لہ وصیت قبول کرے گا تب وصیت صحیح ہوگی۔یہاں وصیت کرنے والے سے پہلے ہی موصی لہ مر گیا تو وصیت قبول کون کرے گا؟ اس لئے وصیت باطل ہو جائے گی(٢) جس کے لئے وصیت کی تھی وہی نہیں رہا تو وصیت کس کے لئے ہوگی؟ (٣) حدیث گزر چکی ہے۔عبد اللہ بن ابی قتادة عن ابیہ ان النبی ۖ حین قدم المدینة سأل عن البراء بن معرور فقالوا توفی واوصی بثلثہ لک قال قدرددت ثلثہ علی ولدہ (الف) (سنن للبیہقی، باب الوصیة للرجل وقبولہ وردہ ، ج سادس، ص ٤٥٢، نمبر ١٢٦١٣) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مرنے کے بعد وصیت قبول کرنے یا رد کرنے کا حق ہوتا ہے۔ اور یہاں قبول کرنے والا ہی پہلے مرگیا تو کون قبول کرے گا۔اس لئے یہ وصیت باطل ہو جائے گی۔
]٣١٩٤[(٥٧)اگر وصیت کی فلاں کی اولاد کے لئے تو وصیت ان کے درمیان مذکر اور مؤنث برابر ہوںگے۔
تشریح وصیت کی فلاں کی اولاد کے لئے تو اولاد میں مذکر بھی ہوتی ہے اور مؤنث بھی۔اس لئے دونوں کو برابر وصیت کا مال ملے گا۔
وجہ اولادہونے میں دونوں کے درجے برابر ہیں (٢) اثر میں ہے۔عن الحسن فی الرجل یقول لبنی فلان کذا وکذا قال ھو لغنیھم وفقیرھم وذکرھم وانثاھم (ب) (مصنف ابن ابی شیبة، ٨ فی رجل قال لبنی فلان یعطی الاغنیائ،ج سادس، ص ٢١٢، نمبر
حاشیہ : (الف) آپۖ جب مدینہ آئے تو براء بن معرور کے بارے میں پوچھا۔تو لوگوں نے کہا اس کا انتقال ہو چکا ہے اور اس نے تہائی مال کا آپۖ کے لئے وصیت کی ہے۔آپۖ نے فرمایا اس کا تہائی مال اس کی اولاد پر واپس کرتا ہوں(ب) حضرت حسن فرماتے ہیں کسی نے کہا فلاں کی اولاد کے لئے اتنا اتنا(باقی اگلے صفحہ پر)