Deobandi Books

شرح ثمیری شرح اردو قدوری جلد 4 - یونیکوڈ

394 - 485
]٣١٩١[(٥٤) فان خرجت رقبة العبد من الثلث سُلِّمَ الیہ للخدمة وان کان لا مال لہ غیرہ خَدَمَ الورثة یومین والموصٰی لہ یوما۔
 
وجہ  جس طرح عین شیء کی قیمت ہوتی ہے اسی طرح نفع کی بھی قیمت ہوتی ہے۔اس لئے اس کی بھی وصیت کرسکتا ہے(٢)وقف میں اس کا اشارہ ہے۔عن ابن عمر قال اصاب عمر بخیبر ارضا فاتی النبی ۖ فقال اصبت ارضا لم اصب مالا قط انفس منہ فکیف تامرنی بہ؟ قال ان شئت حبست اصلھا وتصدقت بھا،فتصدق عمر انہ لا یباع اصلھا ولا یوھب ولا یورث فی الفقراء والقربی والرقاب وفی سبیل اللہ (الف) (بخاری شریف، باب الوقف کیف یکتب، ص ٣٨٨، نمبر ٢٧٧٢) اس حدیث میں اصل زمین وقف نہیں کی بلکہ اس کا نفع وقف کیا جس سے معلوم ہوا کہ نفع کی بھی وصیت کی جا سکتی ہے(٢) اثر میں ہے۔وقال الزھری فیمن جعل الف دینار فی سبیل اللہ ودفعھا الی غلام لہ تاجر یتجر بھا وجعل ربحہ صدقة للمساکین والاقربین،ھل للرجل ان یاکل من ربح تلک الالف شیئا؟وان لم یکن جعل ربحھا صدقة فی المساکین،قال لیس لہ ان یاکل منھا (الف) (بخاری شریف، باب وقف الدواب والکراع والعروض والصامت ،ص٣٨٩،نمبر ٢٧٧٥) اس اثر میں بھی اصل دینار وقف نہیں کیا بلکہ اس کا نفع وقف کیا ۔اسی پر قیاس کرکے نفع یعنی غلام کی خدمت یا مکان کی رہائش کی وصیت کچھ سالوں کے لئے بھی کر سکتا ہے اور ہمیشہ کے لئے بھی کر سکتا ہے۔
اصول  کسی چیز کا نفع وصیت میں اصل کی طرح ہے۔
لغت  سکنی  :  رہائش،  سنین  :  سنة کی جمع ہے سال۔
]٣١٩١[(٥٤)پس اگر غلام نکل سکے تہائی مال سے تو موصی لہ کے حوالہ کردیا جائے گا خدمت کے لئے۔اور اگر اس کے علاوہ مال نہ ہو تو ورثہ کی خدمت کرے گا دو دن اور موصی لہ کی ایک دن۔
تشریح   مثلا غلام کی قیمت تین ہزار ہے اور چھ ہزار مالیت ہے،کل ملاکر نو ہزار ہے۔اس صورت میں غلام پورے مال کی تہائی ہے اس لئے غلام کی پوری خدمت موصٰی لہ کے لئے ہوگی۔اور پورا غلام وصیت کی مدت تک کے لئے موصی لہ کے حوالے کر دیا جائے گاتاکہ اس کی خدمت کرے۔
وجہ  غلام پورے مال کی تہائی ہے اس لئے غلام کی پوری خدمت موصی لہ کے لئے ہوگی۔

حاشیہ  :  (الف) حضرت عمر کو خیبر میں زمین ملی تو حضورۖ کے پاس آئے اور کہا،مجھ کو اتنی اچھی زمین ملی ہے کہ اس سے پہلے کبھی نہیں ملی تھی۔آپۖ بتائے اس کو کیا کروں؟ آپۖ نے فرمایا چاہو تو اس کی اصل روک لو اور اس کے نفع کو صدقہ کرلو۔پس حضرت عمر نے صدقہ کیا اس طرح کہ اس کی اصل نہ بیچی جائے نہ ہبہ کی جائے نہ اس کا کوئی وارث ہو۔فقرائ،رشتہ دار،غلام اور اللہ کے راستے میں(ب) حضرت زہری نے فرمایا کوئی آدمی سو دینار اللہ کے راستہ میں صدقہ کرے اور تاجر غلام کو دیدے تاکہ وہ اس سے تجارت کرے اور اس کا نفع مسکین اور رشتہ داروں کے لئے صدقہ کردے،کیا اس آدمی کے لئے جائز ہے کہ اس ہزار کے نفع سے کھائے؟ اور نہ کھائے تو اس کا نفع مساکین میں صدقہ کردے؟ فرمایا اس کے لئے جائز نہیں ہے کہ اس سے کھائے۔

Flag Counter