Deobandi Books

شرح ثمیری شرح اردو قدوری جلد 4 - یونیکوڈ

329 - 485
لحق بدار الحرب بطلت]٣٠٩٠[(١١١) وان عاد المرتد بعد الحکم بلحاقہ الی دار الاسلام مسلما فما وجدہ فی ید ورثتہ من مالہ بعینہ اخذہ]٣٠٩١[(١١٢) والمرتدّة اذا تصرفت فی مالھا فی حال رِدّتھا جاز تصرفھا]٣٠٩٢[(١١٣) ونصاری بنی تغلِب یؤخذ من اموالھم ضعفُ مایؤخذ من المسلمین من الزکوة ویؤخذ من نسائھم ولا یؤخذ من

کرتے ہوئے باقی معاملات بھی موقف رہیںگے۔اور جس طرح عدت ختم ہونے کے بعد اسلام لائے تو نکاح ختم ہو جائے گا اسی طرح مرتد کی حالت میں مر جائے یا قتل کیا جائے یا دار الحرب بھاگ جائے تو اس کا عقد باطل ہو جائے گا۔
]٣٠٩٠[(١١١)اگر مرتد لحاق کے حکم کے بعد دار الاسلام واپس آجائے تو جو پائے ورثہ کے ہاتھ میں بعینہ مال تو اس کو لے لے۔
تشریح   مرتد بھاگ کر دار الحرب چلا گیا۔ اس کے بعد حاکم نے دار الحرب بھاگ جانے کا فیصلہ کردیا۔پھر وہ مسلمان ہوکر واپس دار الاسلام آیا تو اس کا جو مال ورثہ کے ہاتھ میں اپنی حالت پر موجود ہے وہ واپس لے لے۔اور جو مال خرچ کرچکا ہے اس کو ورثہ سے وصول نہیں کرسکتا۔
وجہ  دار الحرب میں شامل ہونے کے فیصلے کے بعد گویا کہ وہ مردہ ہوگیا۔اس لئے ورثہ نے جو مال تقسیم کرکے لیا وہ اس کے مالک بن گئے۔اور ان کا تصرف کرنا صحیح ہو گیا۔اس لئے جو کچھ خرچ کر چکے ہیں اس کا ضمان لازم نہیں ہوگا۔
اور جو مال ورثہ کے ہاتھ میں محفوظ ہے اس نو مسلم کو اس کی اشد ضرورت ہے،اور حقیقت میں اسی کا کمایا ہوا ہے اس لئے اس کو واپس دلوایا جائیگا۔
]٣٠٩١[(١١٢)مرتدہ عورت اپنی ردت کے زمانے میں تصرف کرے تو اس کا تصرف جائز ہے۔
وجہ  جب مرتدہ عورت کو قتل نہیں کیا جائے گا بلکہ توبہ کرنے تک زندہ رکھا جائے گا تو ظاہر ہے کہ بیع و شراء کی بھی اجازت ہونی چاہئے ورنہ تو زندگی کیسے گزارے گی۔ اس لئے اس کو اپنے مال میں تصرف کی اجازت ہوگی۔
]٣٠٩٢[(١١٣)بنی تغلب کے نصاری سے اس کے مال میں دوگنا لیا جائے گا جتنی مسلمانوں سے زکوة لی جاتی ہے۔ اور لیا جائے گا اس کی عورتوں سے اور نہیں لیا جائے گا ان کے بچوں سے۔
تشریح   مسلمانوں سے زکوة چالیس درہم میں ایک درہم یعنی ڈھائی فی صدہے تو بنی تغلب سے اس کا دوگنا لیا جائے گا یعنی بیس درہم میں ایک درہم یعنی پانچ فی صد لیا جائے گا۔ اور ان کی عورتوں کے مال سے لیا جائے گا۔لیکن ان کے بچوں سے نہیں لیا جائے گا۔
وجہ  عن عمربن الخطاب انہ صالح نصاری بنی تغلب علی ان تضعف علیھم الزکوة مرتین وعلی ان لا ینصروا صغیرا وعلی ان لا یکرھوا علی دین غیرھم (الف) (مصنف ابن ابی شیبة ،١٠٥ فی نصاری بنی تغلب ما یوخذ منھم ،ج ثانی، ص ٤١٧، 

حاشیہ  :  (الف) حضرت عمر نے بنی تغلب کے عیسائی سے اس بات پر صلح کی کہ ان پر زکوة کا دوگنا ہواور اس شرط پر کہ بچے کو عیسائی نہیں بنائیںگے اور اس شرط پر کہ دوسرے دین پر مجبور نہیں کریںگے۔

Flag Counter