Deobandi Books

شرح ثمیری شرح اردو قدوری جلد 4 - یونیکوڈ

316 - 485
علی اھل الکتاب والمجوس وعبدة الاوثان من العجم]٣٠٧٢[(٩٣) ولا توضع علی 

عجم کے مشرکوں سے جزیہ لیا جائے اس کی دلیل لمبی حدیث کا یہ ٹکڑا ہے۔قال بعث عمر الناس فی افناء الامصار یقاتلون المشرکین ... فامرنا نبینا رسول ربنا صلی اللہ علیہ وسلم ان نقاتلکم حتی تعبدواللہ وحدہ او تؤدو الجزیة (الف) (بخاری شریف، باب الجزیة واموادعة مع اہل الذمة والحرب،ص ٤٤٦، نمبر ٣١٥٩) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عجم کے مشرکوں سے جزیہ لیا جا سکتا ہے۔کیونکہ افناء الامصار سے معلوم ہوا کہ عجم کے بت پرستوں سے جہاد کرنے گئے تھے۔
لغت  عبد الاوثان  :  وثن کی جمع ہے،بت کے بندے یعنی بت پرست،  المجوس  :  جو قوم آگ کی پوجا کرتی ہے۔
]٣٠٧٢[(٩٣)اور جزیہ مقرر نہیں کیا جائے گا عرب کے بت پرستوں پر اور نہ مرتد پر۔
وجہ   آیت سے اشارہ ملتا ہے کہ عرب کے مشرکین یا تو اسلام قبول کریں یا قتل کے لئے تیار رہیں۔ ذمی بن کر جزیہ دینا اس کے لئے قابل قبول نہیں ہے۔اس لئے ان سے جزیہ نہیں لیا جائے گا۔آیت میں ہے ۔ فاذا انسلخ الاشھر الحرم فاقتلوا المشرکین حیث وجدتموھم وخذوھم واحصروھم واقعدوا لھم کل مرصد فان تابوا واقاموا الصلوة وآتوا الزکوة فخلوا سبیلھم (ب) (آیت ٥، سورة التوبة ٩) اس آیت میں ہے کہ نماز قائم کرنے یعنی اسلام لانے تک قتال کرتے رہو اور یہ مشرکین عرب کے بارے میں ہے۔ اس لئے مشرکین عرب کو جزیہ دیکر جزیرۂ عرب میں رہنے کا حق نہیں ہے (٢) دوسری آیت میں بھی اس کی تائید ہے ۔وقاتلوھم حتی لا تکون فتنة ویکون الدین کلہ للہ (ج) (آیت ٣٩، سورة الانفال ٨) اس آیت میں کفار عرب کے بارے میں اشارہ ہے کہ ان سے اتنا قتال کرو کہ پورا دین صرف اللہ کا ہو جائے۔ اس لئے بھی ان سے جزیہ نہیں لیا جائے گا (٣) حدیث میں ہے۔ عن ابن عباس انہ علیہ السلام قال لا یقبل من مشرکی العرب الا الاسلام او السیف (د) (فتح القدیر،ج خامس ،ص ٢٩٣ اعلاء السنن ،نمبر ٤١٧٣) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مشرکین عرب سے قتل یا اسلام دونوں میں سے ایک ہے اس لئے جزیہ نہیں لیا جائے گا۔
فائدہ  امام شافعی فرماتے ہیں کہ اہل عرب کے مشرکین سے بھی جزیہ لیا جا سکتا ہے۔
وجہ  وہ فرماتے ہیں کہ عرب کے اہل کتاب سے جزیہ لیا جا سکتا ہے اسی پر قیاس کرکے اہل عرب کے مشرکین سے بھی جزیہ لیا جا سکتا ہے۔
مرتد پر جزیہ اس لئے نہیں ہے کہ اگر مرد ہے تو یا دو بارہ اسلام قبول کرے یا اس کو تین دن کے بعد قتل کر دیا جائے گا۔اور جزیہ کا مطلب یہ ہے کہ کفر کی حالت میں جزیہ دے کر زندہ رہے اور زندہ رہنے کا حق نہیں ہے اس لئے اس سے جزیہ بھی نہیں لیا جائے گا۔چاہے عرب کا مرتد ہو چاہے عجم کا مرتد ہو۔
 
حاشیہ  :  (الف) حضرت عمر نے کچھ لوگوں کو شہر کی مضافات میں جنگ کے لئے روانہ فرمایا ... ہم کو حضورۖ نے حکم دیا کہ اس وقت تک جنگ کرتے رہیں کہ ایک اللہ کی عبادت کرنے لگ جائیں یا جزیہ ادا کریں (ب)جب اشہر حرم ختم ہو جائیں تو جہاں کہیں پائیں مشرکین سے قتال کریں اور ان کو پکڑیں اور ان کو قید کریں  اور ان کے لئے ہر گھات کی جگہ میں بیٹھیں۔پس اگر توبہ کرلیں اور نماز قائم کرنے لگیں اور زکوة دینے لگیں تو ان کا راستہ چھوڑ دیں(ج) اور ان سے لڑیں یہاں تک کہ فتنہ نہ رہے اور دین پورا کا پورا اللہ کے لئے ہو جائے (د)آپۖ نے فرمایا عرب کے مشرکین سے صرف اسلام قبول کیا جائے گا یا تلوار کے لئے تیار رہیں۔

Flag Counter