Deobandi Books

شرح ثمیری شرح اردو قدوری جلد 4 - یونیکوڈ

314 - 485
ضربین جزیة توضع بالتراضی والصلح فتقدر بحسب مایقع علیہ الاتفاق .]٣٠٧٠[ (٩١)وجزیة یبتدیٔ الامام وضعھا اذا غلب الامام علی الکفار واقرّھم علی املاکھم فیضع علی الغنی الظاھر الغناء فی کل سنةٍ ثمانیةً واربعین درھما یأخذ منہ فی کل شھر اربعة دراھم وعلی المتوسط الحال اربعةً وعشرین درھما فی کل شھر درھمین وعلی 

علی الفیٔ حلة النصف فی صفر والنصف فی رجب یؤدونھا الی المسلمین (الف) (ابو داؤد شریف، باب فی اخذ الجزیة ،ص ،نمبر ٣٠٤١) اس حدیث میں ہے کہ حضورۖ نے اہل نجران سے دو ہزار حلے پر صلح کی،اور یہی جزیہ مقرر رہا۔
]٣٠٧٠[(٩١)اور وہ جزیہ جو امام ابتداء مقرر کرے جب وہ غالب آئے کفار اور مالکوں کو ان کی ملکیتوں پر برقرار رکھے تو ظاہری مالدار پر ہر سال اڑتالیس درہم مقرر کرے،اور اس سے ہر مہینے میں چار درہم لے۔اور اوسط درجے کے آدمی پر چوبیس درہم،ہر مہینے میں دو درہم ۔اور مزدوری کرنے والے فقیر پر بارہ درہم،ہر مہینے میں ایک درہم۔
تشریح   اگر کفار سے جزیہ کے بارے میں بات طے نہ ہوئی ہو اور امام کفار پر غلبہ کرنے کے بعد اپنے طور پر جزیہ مقرر کرے تو اس کی مقدار یہ ہو کہ جو اچھا مالدار ہے اس پر سالانہ اڑتالیس درہم اور ہر ماہ میں چار درہم وصول کرے۔اور درمیانی حال والے پر چوبیس درہم ہر ماہ میں دو درہم وصول کرے۔اور مزدوری کرنے والے فقیر پر بارہ درہم ہرماہ میں ایک درہم وصول کرے۔
وجہ  جزیہ مقرر کرے اس کی دلیل یہ آیت ہے۔قاتلوا الذین لا یومنون باللہ ولا بالیوم الآخر ولا یحرمون ماحرم اللہ ورسولہ ولا یدینون دین الحق من الذین اوتوا الکتاب حتی یعطوا الجزیة عن ید وھم صاغرون (ب) (آیت ٢٩، سورة التوبة ٩) اس آیت سے معلوم ہوا کہ کفار پر جزیہ مقر کیا جائے گا(٢) اور مقدار کے بارے میں یہ اثر ہے۔قال وضع عمر بن الخطاب فی الجزیة علی رء وس الرجال علی الغنی ثمانیة و اربعین درھما وعلی الوسط اربعة وعشرین وعلی الفقیر اثنی عشر درھما (ج) (مصنف ابن ابی شیبة ،١٧ ماقالوا فی وضع الجزیة والقتال علیھا ،ج سادس ، ص٤٣٢، نمبر ٣٢٦٣٣ سنن للبیہقی، باب الزیادة علی الدینار بالصلح ، ج تاسع، ص ٣٢٩، نمبر ١٨٦٨٥) اس اثر سے مقدار کی تفصیل معلوم ہوئی (٣) اس میں مالدار اور فقیر کی رعایت ہے کہ مالدار پر زیادہ ہے اور فقیر پر کم ہے۔
فائدہ  امام شافعی فرماتے ہیں کہ مالدار ہو یا غریب سب پر سال میں ایک دینار جزیہ مقرر کیا جائے گا۔
 
حاشیہ  :  (الف) ابن عباس فرماتے ہیں کہ حضورۖ نے اہل نجران سے دو ہزار حلوںپر صلح کی،آدھا صفر میں اور آدھا رجب میں مسلمانوں کو ادا کریںگے(ب) جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان نہیں رکھتے ہیں ان سے قتال کریں،اور اللہ اور اس کے رسول نے جو حرام کیا اس کو حرام نہیں سمجھتے۔اور ان میں سے جو کتاب دیئے گئے وہ دین حق اختیار نہیں کرتے ان سے قتال کریں۔یہاں تک کہ ذلیل ہوکر اپنے ہاتھوں سے جزیہ دینے لگ جائیں(ج) حضرت عمر نے مالدار مردوں کی ذات پر اڑتالیس درہم جزیہ مقرر فرمایا اور وسط آدمی پر چوبیس اور فقیر پر بارہ درہم۔

Flag Counter