Deobandi Books

شرح ثمیری شرح اردو قدوری جلد 4 - یونیکوڈ

303 - 485
اقصی حجر بالیمن بمھرة الی حد الشام ]٣٠٥٦[(٧٧) والسواد کلھا ارض خراج وھی مابین العُذیب الی عقبة حُلوان ومن الثعلبة ویقال ومن العلث الی عبّادان]٣٠٥٧[(٧٨) وارض السواد مملوکة لاھلھا یجوز بیعھم لھا وتصرفھم فیھا۔
 
ت  عذیب  :  یہ عراق کے پاس ہے اور عراق کے حاجی وہاں سے گزرتے تھے۔
]٣٠٥٦[(٧٧)اور سواد عراق کی کل زمین خراجی ہے جو مقام عذیب سے مقام عقبہ حلوان تک اور ثعلبہ اور بعض لوگ کہتے ہیں مقام علث سے عبادان تک۔
تشریح   اس زمانے میں عراق کی زمین میں کاشت بہت ہوتی تھی اس لئے اس کو زرخیز یعنی کالا کہتے تھے۔عراق کی حد عذیب سے عقبہ حلوان تک اور علث سے عبادان تک تھی۔اس پر مسلمانوں کا قبضہ تھا اور یہ زمین خراجی سمجھی جاتی تھی۔
لغت  سواد  :  کالا ،یہاں مراد ہے زرخیز زمین۔
]٣٠٥٧[(٧٨)عراق کی زمین وہاں کے باشندوں کی ملکیت ہے۔ان کے لئے اس کا بیچنا اور اس میں تصرف کرنا جائز ہے۔
تشریح   عراق کی زمین کے بارے میں مختلف روایتیں ہیں۔بعض سے پتا چلتا ہے کہ اس کی زمین مجاہدین کے درمیان تقسیم کی تھی۔اور بعض سے پتا چلتا ہے کہ تقسیم نہیں کی تھی۔اور جو حصہ تقسیم کی تھی اس کو بھی بعد میں واپس لے لیا اور مسلمانوں کے فائدے کے لئے چھوڑ دیا۔اور تمام زمین پر خراج مقرر کیا۔ اورقاعدہ یہ ہے کہ کوئی کسی زمین کا مالک ہو اور اس کا خراج ادا کرتا ہو تو اس زمین کو بیچ سکتا ہے اور تصرف کر سکتا ہے۔ 
وجہ  اس کی دلیل یہ اثر ہے۔ عن ابن سیرین قال السواد منہ صلح ومنہ عنوة،فما کان منہ عنوة فھو للمسلمین وماکان منہ صلح فلھم اموالھم (الف) (سنن للبیہقی، باب السواد ، ج تاسع، ص ٢٢٥،نمبر ١٨٣٥٨) اس اثر سے معلوم ہوا کہ عراق کا بعض حصہ غلبہ سے فتح ہوا تھا اور بعض حصہ صلح سے۔جو غلبہ سے فتح ہوا تھا اس کو مسلمانوں کے لئے تقسیم کردیا۔اورجو صلح سے فتح ہوا تھا وہ مالک کا مال رہا۔اور جب مالک کا مال رہا تو اس کو بیچ بھی سکتا ہے (٢) عن عمر انہ اراد ان یقسم اھل السواد بین المسلمین وامر بھم ان یحصوا فوجدوا الرجل المسلم یصیبہ ثلاثة من الفلاحین یعنی العلوج فشاور اصحاب النبی ۖ فی ذلک فقال علی دعھم یکونون مادة للمسلمین فبعث عثمان بن حنیف فوضع علیھم ثمانیة واربعین ،واربعة وعشرین واثنی عشر (ب) (سنن للبیہقی، باب السواد ، ج تاسع، ص ٢٢٦، نمبر ١٨٣٧٠) اس اثر سے معلوم ہوا کہ حضرت علی کے مشورے سے عراق کی زمین تقسیم نہیں کی گئی۔اس لئے وہاں کے لوگ اس کے مالک رہے۔
 
حاشیہ  :  (الف)حضرت ابن سیرین نے فرمایا عراق کا کچھ حصہ صلح سے فتح ہوا ہے اور کچھ حصہ زبردستی،پس جو زبردستی فتح ہو وہ مسلمانوں کی غنیمت ہے اور جو صلح سے ہو وہ صلح کرنے والے کا مال ہے(ب)حضرت عمر نے چاہا کہ عراق والوں کو مسلمانوں کے درمیان تقسیم کرے تو لوگوں کو حکم دیا کہ ان کو گنے۔ تو دیکھا کہ ایک مسلمان مرد کے حصے میں تین کاشتکار یعنی کافر آتے ہیں۔ پس اصحاب نبی نے مشورہ کیا تو حضرت علی نے فرمایا ان کو چھوڑ دیں۔مسلمانوں کے مادہ ثابت ہوں گے۔پھر عثمان بن حنیف کو روانہ کیا تو ان میں سے کسی پر اڑتالیس اور کسی پر چوبیس اور کسی پر بارہ درہم مقرر کیا۔

Flag Counter