Deobandi Books

شرح ثمیری شرح اردو قدوری جلد 4 - یونیکوڈ

301 - 485
المسلمون من اموال اھل الحرب بغیر قتال یُصرف فی مصالح المسلمین کما یُصرف الخراج ۔
 
المسلمون فصار فی ایدیھم من الکفار والخمس فی ذلک الی الامیر،یضعہ حیث ما امر اللہ ،والاربعة الاخماس الباقیة للذین غنموا الغنیمة،والفیٔ ماوقع من صلح بین الامام والکفار فی اعناقھم وارضھم وزرعھم وفیما صولحوا علیہ مما لم یأخذہ المسلمون عنوة،ولم یحوزوہ ولم یقھروہ علیہ حتی وقع فیہ بینھم صلح،قال فذلک الصلح الی الامام یضعہ حیث امر اللہ (الف) (مصنف عبد الرزاق، باب الغنیمة والفیٔ مختلفان ، ج خامس، ص ٣١٠، نمبر ٩٧١٥) اس اثر میں مال غنیمت اور مال فیٔ کو الگ الگ بیان کیا گیا ہے اور بتایا کہ صلح کے مال کو مال فیٔ کہتے ہیں۔
مال فیٔ کو امور المسلمین میں خرچ کرے اس کی دلیل یہ آیت ہے۔ ما افاء اللہ علی رسولہ من اھل القری فللہ وللرسول ولذی القربی والیتٰمٰی والمساکین وابن السبیل کی لا یکون دولة بین الاغنیاء منکم (ب) (آیت٧ ، سورة الحشر ٥٩) اس آیت میں ہے۔اللہ نے جو فیٔ دیا وہ رشتہ داروں،یتیموں،مسکینوں اور مسافروں کے لئے ہے۔جس سے معلوم ہوا کہ اس میں خمس بھی نہیں ہے۔اور مجاہدین میں بھی تقسیم نہیں کیا جائے گا،بلکہ امت کی مصلحت میں خرچ کیا جائے گا(٢)حدیث میں اس کی تائید ہے۔عن ابی ھریرة ان رسول اللہ ۖ قال ایماقریة افتتحھا اللہ ورسولہ فھی للہ ولرسولہ ،وایما قریة افتتحھا المسلمون عنوة فخمسھا للہ ولرسولہ وبقیتھا لم قاتل علیھا (ج) (سنن للبیہقی، باب من رای قسمة الاراضی المغنومة ومن لم یرھا ،ج تاسع، ص ٢٣٤، نمبر ١٨٣٩٣) اس حدیث میں ہے جس کو مجاہدین نے فتح کیا اس میں مجاہدین کے چار حصے ہیں،اور جس کو مجاہدین نے فتح نہیں کیا بلکہ مسلمانوں کے رعب سے دشمن نے صلح کر لی وہ سب مال نوائب المسلمین کے لئے ہوگا اور اس کی مصلحتوں میں خرچ کیا جائے گا(٣) حدیث میں ہے۔ عن ابن عباس قال صالح رسول اللہ ۖ اھل نجران علی الفیٔ حلة النصف فی صفر والنصف فی رجب یودونھا الی المسلمین (د) (ابوداؤد شریف، باب فی اخذ الجزیة ،ج٢، ص ٧٤،نمبر ٣٠٤١) اس حدیث میں ہے کہ اہل نجران سے جو صلح ہوئی تھی اس مال میں خمس نہیں لیا جاتا تھا۔اور نہ مجاہدین میں تقسیم ہوتا تھا۔بلکہ پورا مال مسلمانوں کے کام آتا تھا۔
لغت  اوجف  :  گھوڑا دوڑانا،یہاں مراد ہے دوڑ کر مال جمع کر لینا۔
 
حاشیہ  :  (الف) حضرت ثوری نے فرمایافئی اور غنیمت الگ الگ مال ہیں۔ غنیمت اس کو کہتے ہیں کہ مسلمان نے کفار سے قبضے میں لیا۔اس کا خمس امیر کودیا جاتا ہے۔اللہ نے اس کو جیسا حکم دیا وہاں خرچ کرے۔اور باقی چار خمس ان لوگوں کے لئے ہے جنہوں نے غنیمت حاصل کی۔اور فیٔ یہ ہے کہ امام اور کفار کے درمیان صلح کی وجہ سے کفار کی ذات پر ،اس کی زمین پر اور اس کی کھیتی پر لازم ہو ،جس مال پر بھی صلح ہوئی ہو جس کو مسلمانوں نے بزور طاقت نہ لی ہو اور نہ اس پر قبضہ کیا ہو۔یہاں تک کہ آپس میں صلح ہو گئی ہو۔یہ صلح کا مال امام کی ذمہ داری ہے کہ اللہ نے جیسا حکم دیا وہاںخرچ کرے (ب)اللہ نے اپنے رسول کو جو کچھ اہل قری کا فیٔ دیا تو وہ اللہ اور رسول کے لئے ہے۔اور رشتہ داروں کے لئے اور یتیموں ، مسکینوں اور مسافروں کے لئے ہے تاکہ تمہارے مالداروں کے درمیان دولت نہ بن جائے (ج) آپۖ نے فرمایا کسی گاؤں کو اللہ رسول نے فتح کیا تو وہ اللہ اور رسول کے لئے ہے۔اور کسی گاؤں کو مسلمانوں نے زبردستی فتح کیا تو اس کا خمس اللہ اور رسول کے لئے ہے اور باقی اس کے لئے ہے جس نے اس پر قتال کیا(د) آپۖ نے اہل نجران سے دو ہزار حلے پر صلح کی آدھاصفر مہینے میں اور آدھا رجب میںمسلمان کو ادا کریںگے۔
 
Flag Counter