Deobandi Books

شرح ثمیری شرح اردو قدوری جلد 4 - یونیکوڈ

297 - 485
ویؤمر ان یتصدَّق بہ]٣٠٥٠[(٧١) واذا دخل الحربی الینا مستامنا لم یمکن لہ ان یقیم فی دارنا سنةً ویقول لہ الامام ان اقمتَ تمام السنة وضعتُ علیک الجزیة فان اقام سنة 

حدیث میں ہے کہ حضرت مغیرہ بن شعبہ نے اپنے کافر ساتھیوں کو دھوکا دے کر قتل کیا اور ان کے مالوں کو ساتھ لیکر حضورۖ کے پاس آئے تو آپۖ نے فرمایا اسلام تو قبول ہے۔لیکن مال دھوکے کا ہے اس لئے مجھے اس کی ضرورت نہیں۔ اور آپۖ نے اس میں سے خمس لینے سے بھی انکار کردیا۔جس سے معلوم ہوا کہ اس کی ملکیت محظور ہے۔ پھر آپۖ نے اس مال کو مالک کے ورثہ کی طرف واپس کرنے کا حکم نہیں دیا۔جس سے معلوم ہوا کہ مسلمان مالک ہوگیا (٢) پہلے گزر چکا ہے کہ مسلمان حربیوں کے مال کا مالک بن جائے تو وہ مالک ہوجاتا ہے کیونکہ وہ مال غنیمت کے درجے میں ہے۔ جس طرح حربی مسلمان کے مال کا مالک بن جائے تو مالک ہوجاتا ہے (٣) دار الحرب لے جا کر واپس کرنا بھی ایک مشکل کام ہے اس میں جان کا خطرہ ہے اس لئے بھی مسلمان کو مالک قرار دے دیا جائے گا۔لیکن ملک صحیح نہیں ہے اس لئے مال کو صدقہ کرنے کا حکم دیا جائے گا۔
لغت  تعرض  :  عرض سے مشتق ہے چھیڑنا،  غدر  :  دھوکا دینا،  محظور  :  خبیث۔
]٣٠٥٠[(٧١)اگر حربی ہمارے ملک میں امن لے کر آیا تو ممکن نہیں ہے کہ وہ ہمارے ملک میں ایک سال ٹھہرے۔اور امام اس کو کہے کہ اگر تم سال بھر ٹھہرے تو تم پر جزیہ مقرر کروںگا۔ پس اگر سال بھر ٹھہرا تو اس سے جزیہ لیا جائے گا اور وہ بھی ذمی ہوگا۔اور اب دار الحرب واپس ہونے کی اجازت نہیں دے گا۔
تشریح   حربی کو دار الاسلام میں زیادہ دیر تک ٹھہرانے سے وہ جاسوسی کر سکتا ہے اوردارالاسلام کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔لیکن آنے جانے کا راستہ بالکل بند کردیا جائے تو تجارت بند ہو سکتی ہے اسلئے امن لیکر آتو سکتا ہے۔لیکن سال بھر تک نہیں ٹھہر سکتا اس سے پہلے دار الحرب چلا جائے۔ اور اگر سال بھر ٹھہر گیا تو اس کو اب ذمی بنا لیا جائے گا اوراس پر جزیہ مقرر کردیاجائے گا۔اور واپس دار الحرب جانے کی اجازت نہیں ہوگی۔
وجہ  حربی قلبی اعتبار سے نجس ہے۔اس کا ہمارے یہاں ٹھہرنا اچھا نہیں ۔ اس کا ثبوت اس آیت میں ہے۔یا ایھا الذین آمنوا انما المشرکون نجس فلا یقربوا المسجد الحرام بعد عامھم ھذا (الف) (آیت ٢٨، سورة التوبة٩) اس آیت میں ہے کہ مشرک ناپاک ہے اس کو مسجد حرام کے قریب نہ ہونے دو۔اس سے معلوم ہوا کہ دارالاسلام میں بھی نہیں آنے دینا چاہئے۔ اس حدیث میں مشرکین کو جزیرۂ عرب سے نکالنے کا حکم ہے۔سمع ابن عباس یقول یوم الخمیس وما یوم الخمیس ... فامرھم بثلاث قال اخرجوا المشرکین من جزیرة العرب (ب) (بخاری شریف، باب اخراج الیہودی من جزیرة العرب، ص٤٤٩، نمبر ٣١٦٨ مسلم شریف، باب اخراج الیہود والنصاری من جزیرة العرب ، ج٢، ص ٩٤، نمبر ١٧٦٧) اس حدیث سے بھی معلوم ہوا کہ مشرکین دار الاسلام میں نہ رہیں(٣) اثر میں ہے ۔ان عمر بن الخطاب ضرب للیھود والنصاری والمجوس بالمدینة اقامة ثلاثة ایام یتسوقون بھا ویقضون 

حاشیہ  :  (الف)اے ایمان والو!مشرک ناپاک ہے اس سال کے بعد وہ مسجد حرام کے قریب نہ آئے (ب) آپۖ نے صحابہ کو تین باتوں کا حکم دیا۔ان میں سے ایک یہ ہے کہ مشرکین کو جزیرۂ عرب سے نکال دو۔

Flag Counter