Deobandi Books

شرح ثمیری شرح اردو قدوری جلد 4 - یونیکوڈ

295 - 485
فاخذوا شیئا لم یخمَّس]٣٠٤٨[(٦٩) وان دخل جماعة لھم منعة فاخذوا شیئا خُمِّس 

الغادر ینصب لہ لواء یوم القیامة فیقال ھذہ غدرة فلا ن بن فلان(الف) (ابوداؤد شریف، باب فی الوفاء بالعھد ،ص ٢٣، نمبر ٢٧٥٦ بخاری شریف، باب اثم الغادر للبر والفاجر ،ص ٤٥٢، نمبر ٣١٨٦) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عہد کو پورا کرنا چاہئے ۔اور ایک دو آدمیوں نے گویا کہ چوری کرکے عہد کو توڑا اس لئے اس میں خمس نہیں لیا جائے گا۔
لغت  مغیرین  :  اغار سے مشتق ہے رات کو دھاوابولنا،غارت گیری کرنا۔
]٣٠٤٨[(٦٩) اور اگر قوت والی جماعت داخل ہوئی اور انہوں نے کوئی چیز لی تو خمس لیا جائے گا چاہے امام نے ان کو اجازت نہ دی ہو۔
تشریح   قوت والی جماعت سے مراد مجاہدین کا دستہ ہے غارت گیری کرنے والی جماعت نہیں ہے۔پس اگر مجاہدین کا دستہ امام کی اجازت کے بغیر دار الحرب چلی جائے اور جہاد کرکے مال غنیمت لے آئے تو اس میں خمس ہے۔
وجہ   یہ غارت گیری نہیں ہے بلکہ جہاد ہی ہے۔صرف اتنی بات ہے کہ امام کی اجازت کے بغیر ہے۔کیونکہ یہ دستہ ان لوگوں سے غنیمت حاصل کیا ہے جو حربی ہیں اور جن سے جنگ جاری ہے (٢) اگرچہ امام کی جانب سے ظاہری اجازت نہیں ہے لیکن اندرونی طور پر اجازت ہے کیونکہ ایسے حالات میں امام تو چاہتے ہی ہیں کہ حربیوں کو شکست ہو اور جانی اور مالی نقصان ہو۔ اور اس دستے نے وہ کردیا اس لئے اشارة اجازت موجود ہے اس لئے اس سے خمس لیا جائے گا (٣) حدیث میں حضرت سلمة بن اکوع کی لمبی حدیث ہے جس میں انہوں نے اہل مکہ سے حضورۖ کی اجازت کے بغیر جنگ کی ہے۔اور حضورۖ کے اونٹ کو بھی چھڑایا اور اہل مکہ کے سامان کو بھی مال غنیمت میں حاصل کیا۔پھر حضورۖ نے ان کو گھوڑ سوار اور پیدل دونوں کا حصہ عنایت فرمایا۔ جس سے معلوم ہوا کہ امام کی مراد سمجھ کر اس کی اجازت کے بغیر کوئی جماعت مال غنیمت لے آئے تو اس میں خمس لیا جائے گا۔کیونکہ وہ غنیمت کا مال ہے چوری کا مال نہیں ہے۔حدیث کا ٹکڑا یہ ہے۔حدثنی ایاس بن سلمة عن ابیہ قال اغار عبد الرحمن ابن عیینة علی ابل رسول اللہ ۖ ... فاذا نبی اللہ فی خمس مائة فاعطانی سھم الفارس والراجل (ب) (ابو داؤد شریف، باب السریة ترد علی اہل العسکر ،ص ٢٢، نمبر ٢٧٥٢ مسلم شریف، باب غزوة ذی قرد وغیرھا ،ج٢، ص ١١٣، نمبر ١٨٠٧) اس حدیث میں حضورۖ کی اجازت کے بغیر موقع کا جہاد کیا۔آپۖ نے اس سے خمس بھی لیا ہوگا ۔اور صحابی کو پیدل اور گھوڑ سوار کے حصے عنایت فرمائے۔اثر میں اس کا ثبوت ہے۔عن الحسن قال اذا رحلوا باذن الامام اخذ الخمس وکان لھم ما بقی واذا رحلوا بغیر اذن الامام فھو اسوة الجیش (ج) (مصنف ابن ابی شیبة،١١٢ فی السریة تخرج بغیر اذن الامام فتغنم ،ج سادس، ص ٤٩٩، نمبر ٣٣٢٣١) اس اثر میں ہے کہ جیش کے برابر ہوگا یعنی خمس لیا جائے گا۔
 
حاشیہ  :  (الف) آپۖ نے فرمایا دھوکے دینے والے کے لئے قیامت کے دن جھنڈا نصب کیا جائے گا اور کہا جائے گا یہ فلاں کو دھوکا دینے والا ہے(ب) ایاس بن مسلمہ کے باپ فرماتے ہیں کہ عبد الرحمن بن عیینہ نے حضورۖ کے اونٹ پر دھاوا بولا ... حضورۖ کے سامنے پانچ سو اونٹ تھے تو مجھے گھوڑ سوار اور پیدل کا حصہ دیا (ج) حضرت حسن نے فرمایا اگر امام کی اجازت سے کوچ کرے تو خمس لیا جائے گا اور ما بقی لشکر کا ہوگا۔اور امام کی اجازت کے بغیر کوچ کرے تو سب لشکر کو جتنا ملے گا اس کو بھی اس میں سے اتنا ہی ملے گا۔

Flag Counter