Deobandi Books

شرح ثمیری شرح اردو قدوری جلد 4 - یونیکوڈ

294 - 485
]٣٠٤٧[(٦٨) واذا دخل الواحد والاثنان الی دار الحرب مغیرین بغیر اذن الامام 

آپۖ کی وفات کے بعد مدد کا سلسلہ ختم ہوگیا اس لئے رشتہ داروں کا حصہ بھی ختم ہوگیا۔ اب رشتہ داری کی بنا پر نہیں دیا جائے گا۔البتہ ان میں سے کوئی یتیم یا مسکین یا مسافر ہوتو یتیم ہونے یا مسکین ہونے یا مسافر ہونے کی بناپر دیا جائے گا۔البتہ ان کو پہلے دیا جائے گا کیونکہ یہ حضورۖ کے رشتہ دار ہیں۔اور اب تو وہ بھی نہیں رہے۔
وجہ   تعاون کی دلیل یہ حدیث ہے۔اخبرنی جبیر بن مطعم قال لما کان یوم خیبر وضع رسول اللہ ۖ سھم ذی القربی فی بنی ہاشم وبنی المطلب وترک بنی نوفل وبن عبد شمس،فانطلقت انا وعثمان بن عفان حتی اتینا النبی ۖ فقلنا یا رسول اللہ ! ھؤلاء بنو ھاشم لا ننکر فضلھم للمواضع الذی وضعک اللہ بہ منھم،فما بال اخواننا بنی المطلب اعطیتھم وترکتنا وقرابتنا واحدة؟ فقال رسول اللہ ۖ انا وبنو المطلب لا نفترق فی جاھلیة ولا اسلام وانما نحن وھم شیء واحد وشبک بین اصابعہ صلی اللہ علیہ وسلم (الف) (ابوداؤد شریف، باب فی مواضع قسم الخمس وسھم ذی القربی ،ج٢، ص ٦٠، نمبر ٢٩٨٠) اس حدیث میں آپۖ نے اشارہ فرمایا کہ زمانہ جاہلیت اور زمانہ اسلام دونوں میں بنو مطلب نے ہماری مدد کی ہے جس کی وجہ سے اس کے لئے خمس میں ایک حصہ ہے۔اور آپۖ کی وفات کے بعد مدد کی ضرورت نہیں ہے اس لئے ان کا حصہ ساقط ہو جائے گا(٢) اوپر مستدرک للحاکم کا بھی اثر گزرا جس میں تھا کہ اب آپ کے رشتہ داروں کے حصے ساقط ہونے پر صحابہ کا اتفاق ہو گیا۔عبارت یہ تھی فاجتمع رأیھم علی ان یجعلوا ھذین السھمین فی الخیل والعدة فی سبیل اللہ فکانا علی ذالک فی خلافة ابی بکر وعمر (مستدرک للحاکم ،کتاب قسم الفییٔ ،ج ثانی ،ص ١٤٠ ،نمبر ٢٥٨٥ مصنف عبد الرزاق ، باب ذکر الخمس وسھم ذی القربی ،ج خامس، ص ٢٣٨، نمبر ٩٤٨٢)
]٣٠٤٧[(٦٨)اگر ایک یا دو آدمی دار الحرب میں لوٹ مار کرتے ہوئے داخل ہو جائیں بغیر امام کی اجازت کے اور وہ کچھ لے لیں تو خمس نہیں لیا جائیگا۔
تشریح   بغیر امام کی اجازت کے ایک دو آدمی لوٹ مار کرتے ہو ئے داخل ہو جائیں اور حربیوں کا کچھ مال لوٹ لائیں تو اس میں سے امام خمس نہیں لے گا۔
وجہ   یہ مال غنیمت کا نہیں ہے بلکہ اس طرح کرنا چوری کا مال شمار کیا جائے گا۔اور چوری کے مال میں خمس نہیں ہے۔کیونکہ چوری بہر حال مبغوض ہے چاہے حربیوں کے مال کی چوری کیوں نہ ہو(٢) حدیث میں اس کا اشارہ ہے۔عن ابن عمر ان رسول اللہ ۖ قال ان 

حاشیہ  :  (الف) جبیر بن مطعم فرماتے ہیں کہ جب جنگ خیبر کا دن ہوا تو حضورۖ نے رشتہ داروں کا حصہ بنی ہاشم اور بنی مطلب کودیا۔اور بنو نوفل اور بنو شمس کو چھوڑ دیا تو میں اور حضرت عثمان حضورۖ کے پاس آئے اور عرض کیا یارسول اللہ ! بنو ہاشم کی فضیلت کا انکار نہیں کرتے،کیونکہ آپۖ ان میں پیدا ہوئے ہیں۔لیکن ہمارے بھائی بنو مطلب کو دیا اور ہمیں چھوڑ دیا حالانکہ ہماری اور ان کی رشتہ داری ایک درجے کی ہے۔ تو حضورۖ نے فرمایا کہ ہم اور بنو مطلب زمانہ جاہلیت اور اسلام میں الگ نہیں ہوئے،ہم اور وہ ایک چیز ہیں اور حضورۖ نے دونوں ہاتھوں کی انگلیوں کو ایک دوسرے میں ڈال کر تشبیک کی۔

Flag Counter