Deobandi Books

شرح ثمیری شرح اردو قدوری جلد 4 - یونیکوڈ

286 - 485
]٣٠٣٤[(٥٥) واذا خرج المسلمون من دار الحرب لم یجز ان یعلفوا من الغنیمة و لایأکلوا  منھا شیئا ومن فضل معہ علف او طعام ردّہ الی الغنیمة۔

ثانی، ص ١٢٧) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ گھوڑا، زین،لگام،پٹکا اور ہتھیار وغیرہ سب سلب میں داخل ہیں۔البتہ نقدی،سونا ،چاندی مقتول کے پاس ہوتو وہ سلب میں داخل نہیں ہیں۔
وجہ  اس کی دلیل حضرت عمر کے اثر کا یہ ٹکڑا ہے۔فکتب الی عمر ان دع الناس یأکلون ویعلفون فمن باع شیئا بذھب او فضة فقد وجب فیہ خمس اللہ وسہام المسلمین (الف) (مصنف ابن ابی شیبة ١٢٧، فی الطعام والعلف یوخذ منہ الشیء فی ارض العدو،ج سادس، ص ٥٠٨،نمبر ٣٣٣١٩) اس اثر سے معلوم ہوا کہ سونے چاندی میں سب مجاہدین کا حق ہے۔
]٣٠٣٤[(٥٥)اگر مسلمان دار الحرب سے نکلے تو نہیں جائز ہے کہ چارہ کھلائیں مال غنیمت سے اور نہ اس میں خود کھائیں۔اور جو اس کے ساتھ چارہ یا کھانا بچ جائے اس کو غنیمت میں واپس کردے۔
تشریح   جب تک دار الحرب میں رہا مال غنیمت کا کھانا وغیرہ استعمال کرسکتا تھا۔لیکن جب دار الحرب سے باہر چلے گئے تو اب اس میںسے  استعمال نہیں کر سکتے۔اب جو باقی بچا ہے اس کو بھی مال غنیمت میں شامل کرے اور امام کے تقسیم کرنے کے بعد اپنے اپنے حصے میں کھائے اور چارہ کھلائے۔
وجہ  دار الحرب سے نکلنے کے بعد یہ مال سب مجاہدین کا ہو گیا اس لئے مجاہدین میں تقسیم کرکے اپنا اپنا حصہ استعمال کرے (٢) دار الحرب سے باہر جانے کے بعد غنیمت کو مجاہدین میں تقسیم کرنا ضروری ہے اس لئے اگر ہر ایک کے پاس کھانے پینے کی چیز رہ جائے گی تو مکمل طور پر تقسیم  نہیںہو سکے گی۔اس لئے ان چیزوں کو غنیمت میں شامل کرنا ضروری ہے(٣) فقال معاذ غزونا مع رسول اللہ ۖ خیبر فاصبنا فیھا غنما فقسم فینا رسول اللہ ۖ طائفة وجعل بقیتھا فی المغنم (ب) (ابو داؤد شریف، باب فی بیع الطعام اذا فضل عن الناس فی ارض العدو ،ص١٣، نمبر ٢٧٠٧) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ضرورت کے مطابق ہی استعمال کرے اور باقی مال غنیمت میں شامل کرے (٤) اثر میں ہے۔ان عبد اللہ بن عباس لم یر بأسا ان یأکل الرجل طعاما فی ارض الشرک حتی یدخل اھلہ (ج) (مصنف ابن ابی شیبة، ١٢٩ من قال یأکلون من الطعام ولا یحملون ومن رخص فیہ ،ج سادس، ص ٥٠٩، نمبر ٣٣٣٣٧) اس اثر سے معلوم ہوا کہ اہل یعنی دار الاسلام تک کھا سکتا ہے اس کے بعد واپس جمع کردے۔
 
حاشیہ  :  (پچھلے صفحہ سے آگے )حضرت خالد کے پاس آئے۔سب سونے اور جوہر سے مرصع تھے تو خالد نے اس میں کچھ لیا اور باقی نفل دے دی۔میں نے پوچھا اے خالد ! یہ کیا ہے؟ کیا تمہیں معلوم نہیں کہ حضورۖ نے قاتل کو سب سامان دیا۔خالد نے فرمایا ہاں ! لیکن یہ بہت زیادہ تھا اس لئے کچھ لے لیا (الف) حضرت عمر نے مجھ کو لکھا کہ لوگوں کو کھانے دو اور چارہ مال غنیمت میں کھلانے دو۔ہاں ! کچھ سونا یا چاندی کے بدلے بیچے تو اس میں سے خمس واجب ہے اور مسلمانوں کا حصہ ہے۔ (ب) حضرت معاذ فرماتے ہیں کہ ہم نے حضورۖ کے ساتھ خیبر کا غزوہ کیا۔ہم نے اس میں غنیمت حاصل کی تو حضورۖ نے ایک ٹکڑا ہم میں تقسیم کیا اور باقی غنیمت میں حصہ دے دیا (ج) حضرت عبد اللہ بن عباس اس بات میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے کہ آدمی گھر آنے تک دار الحرب کی زمین میں غنیمت میں سے کھائے۔

Flag Counter