Deobandi Books

شرح ثمیری شرح اردو قدوری جلد 4 - یونیکوڈ

285 - 485
سواء ]٣٠٣٣[(٥٤) والسلب ما علی المقتول من ثیابہ وسلاحہ ومرکبہ۔

سلبہ فقمت فقلت من یشھد لی؟ (الف) (بخاری شریف، باب من لم یخمس الاسلاب ،ص ٤٤٤،نمبر ٣١٤٢ مسلم شریف، باب استحقاق القاتل سلب القتیل ، ص ٨٦ ، نمبر ١٧٥١) اس حدیث کے انداز سے معلوم ہوا کہ امام انعام کا اعلان کرے گا تو مقتول کا سامان قاتل کو ملے گا ورنہ نہیں(٢) کیونکہ ابوبکر نے انعام دینے سے انکار فرمایا ۔فقال ابو بکر لا ھا اللہ اذا لایعمد الی اسد من اسد اللہ یقاتل عن اللہ ورسولہ یعطیک سلبہ (ب) (بخاری شریف، نمبر ٣١٤٢مسلم شریف، نمبر ١٧٥١) اس اثر میں ہے کہ حضرت ابوبکر نے عام حالات میں انعام دینے سے انکار فرمایا۔جس سے معلوم ہوا کہ امام انعام دینے کا وعدہ کرے گا تو سلب دیا جائے گا ورنہ نہیں۔
]٣٠٣٣[(٥٤)مقتول پر جو اس کا کپڑا ہو،ہتھیار ہو اور سواری ہو وہ سلب ہیں۔
تشریح   سلب میں کون کون سے سامان داخل ہیں تو فرماتے ہیں کہ مقتول پر جو کپڑا ہے یا مقتول پر جو ہتھیار ہے اور مقتول جس سواری پر سوار ہے وہ سب سلب میں داخل ہیں۔امام کے 'من قتل قتیلا فلہ سلبہ ' کہنے سے یہ سب سلب میں داخل ہوںگے۔اور امام پر یہ سب دینا لازم ہوگا۔
وجہ  ہتھیار شامل ہے اس کی دلیل یہ حدیث ہے۔عن عبد اللہ بن مسعود قال نفلنی رسول اللہ ۖ یوم بدر سیف ابی جہل کان قتلہ (ج) (ابوداؤد شریف، باب من اجاز علی جریح مثخن ینفل من سلبہ ،ج٢، ص ١٧، نمبر ٢٧٢٢) اس میں ابو جہل کی تلوار نفل میں دیا جس سے معلوم ہوا کہ ہتھیار سلب میں داخل ہے۔سوار سلب میں داخل ہے اس کی دلیل یہ حدیث ہے۔ عن عبد اللہ قال بعثنا رسول اللہ ۖ فی سریة فبلغت سھماننااثنی عشر بعیرا ونفلنا رسول اللہ ۖ بعیرا بعیرا (د) (ابوداؤد شریف،باب فی النفل للسریة تخرج من العسکر ،ج٢، ص ٢٠، نمبر ٢٧٤٥) اس حدیث میں اونٹ نفل میں دیا جس سے معلوم ہوا کہ سواری سلب میں داخل ہے۔کپڑا،لگام ،گھوڑے کا زین وغیرہ بھی سلب میں داخل ہیں اس کی دلیل یہ حدیث ہے۔ ان مددیارافقھم فی غزوة موتة وان رومیا کان یشد علی المسلمین ویغری بھم فتلطف لہ ذلک المددی فقعد لہ تحت صخرة فلما مر بہ عرقب فرسہ وخر الرومی فعلاہ بالسیف فقتلہ فاقبل بفرسہ وسیفہ وسرجہ ولجامہ ومنطقتہ وسلاحہ کل ذلک مذھب بالذھب والجوھر الی خالد بن الولید فاخذ منہ خالد طائفة ونفلہ بقیتہ ،فقلت یا خالد ماھذا ؟ اما تعلم ان رسول اللہ ۖ نفل القاتل سلب کلہ قال بلی ولکنی استکثرتہ(ہ) (طحاوی شریف، باب الرجل یقتل قتیلا فی دار الحرب ھل یکون لہ سلبہ م لا؟،ج 

حاشیہ  : (الف)ہم حضورۖ کے ساتھ جنگ حنین میں نکلے... حضورۖ بیٹھے اور فرمایا جو مقتول کو قتل کرے اور اس پر بینہ ہو تو اس کا سامان اس کو ملے گا۔تو میں کھڑا ہوا اور کہا میری کون گواہی دے گا؟ میں پھر بیٹھ گیا۔پھر آپۖ نے فرمایا جو مقتول کو قتل کرے اور اس پر گواہ ہو تو اس کو اس کا سامان ملے گا۔میں کھڑا ہوا اور کہا میری کون گواہی دیگا؟ (ب)حضرت ابوبکر نے فرمایا ایسا نہیں ہونا چاہئے کہ اللہ کا شیر اللہ کے لئے قتال کرے پھر اس کو مقتول کا سامان دیا جائے(ج) حضرت عبد اللہ ابن مسعود فرماتے ہیں کہ حضورۖ نے مجھ کو جنگ بدر کے دن ابوجہل کی تلوار نفل کے طور پر دیا کیونکہ میں نے اس کو قتل کیا تھا(د)حضرت عبد اللہ فرماتے ہیں کہ حضورۖ نے ہمیں ایک سریے میں بھیجا تو ہمارے حصوں میں بارہ بارہ اونٹ آئے اور حضورۖ نے ایک ایک اونٹ نفل دیا (ہ) مددی غزوۂ موتہ میں ان کے ساتھ ہوئے اور رو مہ حملہ کر رہے تھے مسلمانوں پر۔اور ان کو تتر بتر کر رہے تھے تو مددی نے اس کے ساتھ حیلہ کیا اس کے لئے ایک چٹان کے نیچے بیٹھ گیا۔جب وہاں سے گزرا تو اس کے گھوڑے کی ٹانگ کاٹ دی۔پس رومی سر کے بل گرا پس تلوار کے ساتھ اس پر چڑھ گیا اور اس کا سر کاٹ دیا۔اس کا گھوڑا اور تلوار اور زین اور لگام اور پٹکا اور ہتھیار سب لیکر(باقی اگلے صفحہ پر) 

Flag Counter