Deobandi Books

شرح ثمیری شرح اردو قدوری جلد 4 - یونیکوڈ

227 - 485
خصمہ مع یمینہ]٢٩٦٣[(٣٢) وان قال اصابنی الی موضع کذا فلم یسلمہ الیَّ ولم یشھد علی نفسہ بالاستیفاء وکذَّبہ شریکہ تحالفا وفُسخت القسمة]٢٩٦٤[(٣٣) وان استحق بعض نصیب احدھما بعینہ لم تُفسخ القسمة عند ابی حنیفة رحمہ اللہ تعالی و 

باب الیمین علی المدعی علیہ فی الاموال والحدود ،ص ٣٦٦،نمبر ٢٦٦٨) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مدعی کے پاس گواہ نہ ہوتو مدعی علیہ پر قسم ہے۔
لغت  فالقول قول خصمہ مع یمینہ  :  کا مطلب یہ ہے کہ مدعی کے پاس گواہ نہیں ہے تب مدعی علیہ کی بات قسم کے ساتھ مانی جائے گی۔
]٢٩٦٣[(٣٢)اور اگر کہا کہ مجھ کو فلاں جگہ تک پہنچانا چاہئے  اور اس نے مجھ کو وہاں جاکر سپرد نہیں کیا اور اپنی ذات پر وصول کرنے کی گواہی نہیں دی۔ اور اس کے شریک نے جھٹلایا تو دونوں قسم کھائیںگے تو تقسیم توڑ دی جائے گی۔
تشریح  شریک میں سے ایک آدمی کہتا ہے کہ میرا حصہ فلاں جگہ تک پہنچانے کا وعدہ تھالیکن وہاں تک نہیں پہنچایا ۔اور یہ بھی کہا کہ میں نے اپنا حق ابھی تک وصول نہیں کیا ہے اور اس کے اوپر حق وصول کرنے کی گواہی نہیں دی۔ اور اس کا شریک اس کی تکذیب کرتا ہے اور کہتا ہے کہ فلاں جگہ تک اس کا حصہ پہنچا دیا گیا ہے۔ یا یوں کہا کہ فلاں جگہ تک پہنچانے کا وعدہ نہیں تھا۔اور دونوں کے پاس بینہ نہیں ہے اس لئے دونوں قسمیں کھائیں پھر تقسیم توڑ دی جائے اور دو بارہ تقسیم کرے۔
وجہ  جب مدعی نے حصہ وصول کرنے کا اقرار نہیں کیاتو شروع سے تقسیم کو تسلیم ہی نہیں کیااس لئے مدعی کی بات میں تضاد نہیں ہے اس لئے تقسیم توڑ دی جائے گی اور دوبارہ تقسیم کی جائے گی۔ رہ گئی بات فلاں جگہ تک حصہ پہنچانے کی تو اس میں دونوں مدعی اور دونوں مدعی علیہ ہیں۔ اور کسی کے پاس بینہ نہیں ہے اس لئے دونوں قسمیں کھائیں اور تقسیم توڑ دیں۔
اصول  یہ مسئلہ اس اصول پر ہے کہ مدعی کی بات میں تضاد نہ ہو اور کسی حرکت سے تقسیم کو تسلیم نہ کیا ہو تو تقسیم توڑی جا سکتی ہے۔
لغت  اصاب الی موضع  :  مجھ کو فلاں جگہ تک پہنچائے،یا فلاںجگہ پر ملے۔
]٢٩٦٤[(٣٣)اگر دونوں میں سے ایک کاخاص حصہ مستحق نکل جائے تو تقسیم نہیں ٹوٹے گی امام ابو حنیفہ کے نزدیک اور رجوع کرے گا اس حصے کا اپنے شریک کے حصے سے۔اور امام ابو یوسف نے فرمایا تقسیم ٹوٹ جائے گی۔
تشریح   مثلا ایک ہزار مالیت کی چیز تھی جس میں زید اور خالد حصے دار تھے۔ دونوں نے پانچ پانچ سو کی مالیت تقسیم کر کے لے لی۔ بعد میں زید کے حصے سے کسی خاص چیز میں دوسو مالیت کی چیز عمر کی نکل گئی اور عمر نے دوسو مالیت کی چیز لے لی ۔تو امام ابو حنیفہ کے نزدیک اس خاص جگہ میں کسی کے حصے نکلنے سے تقسیم نہیں ٹوٹے گی اور دو بارہ تقسیم کرنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ البتہ زید کو یہ حق ہوگا کہ دوسو میں سے ایک سو اس کا گیا اور ایک سو شریک یعنی خالد کے حصے میں گیا اس لئے ایک سو کی مالیت خالد سے وصول کرے۔
وجہ  خاص چیز میں کسی کا حصہ نکلا ہے تو اس خاص چیز کی قیمت لگا کر شریک سے وصول کر سکتا ہے۔ اس لئے تقسیم توڑنے کی ضرورت نہیں ہے۔ 

Flag Counter