Deobandi Books

شرح ثمیری شرح اردو قدوری جلد 4 - یونیکوڈ

226 - 485
المتقاسمون فشھدالقاسمان قُبلت شھادتھما ]٢٩٦١[ (٣٠) وان ادّعی احدھم الغلط وزعم انہ مما اصابہ شیء فی ید صاحبہ وقد اشھد علی نفسہ بالاستیفاء لم یصدق علی ذلک الا ببینة]٢٩٦٢[(٣١) وان قال استوفیتُ حقی ثم قال اخذتُ بعضہ فالقول قول 

،اس لئے ان کی گواہی قبول کی جائے۔کیونکہ اپنے لئے گواہی نہیں دی۔ اور یہی نکتہ راجح ہے اس لئے ان کی گواہی قبول کی جائے گی،کیونکہ گواہی دینے کا اصل مقصد یہی ہے۔ 
اصول  یہ مسئلہ اس اصول پر ہے کہ اصل مقصد دوسرے کے خلاف گواہی دینی ہو لیکن پس پردہ اپنے لئے بھی گواہی ہو جائے تو اس کا اعتبار نہیں ہے۔گواہی قبول کر لی جائے گی۔
]٢٩٦١[(٣٠)حصے دار میں سے ایک نے دعوی کیا غلطی کا اور کہے کہ میرا کچھ حصہ دوسرے کے قبضے میں ہے اور اپنی ذات پر گواہی دی وصول کرنے کی تو اس کی تصدیق نہیں کی جائے گی مگر بینہ کے ساتھ۔
تشریح   ایک حصے دار دعوی کرتا ہے کہ قاسم نے تقسیم صحیح نہیں کی اور میرا کچھ حصہ فلاں حصے دار کے قبضے میں چلا گیا ،ساتھ ہی یہ بھی کہتا ہے کہ اپنا حصہ وصول کرلیا ۔تو یہاں اس کے باتوں میں تضاد ہے اس لئے تقسیم کرنے کی خامی پر گواہی دلوائے تب اس کی بات مانی جائے گی۔
وجہ  جب یہ کہہ رہا ہے کہ میں نے اپنا حصہ وصول کر لیا تو اس کا مطلب یہ نکلا کہ وصول کرتے وقت سمجھتا تھا کہ قاسم نے صحیح تقسیم کی ہے تب ہی تو حصہ وصول کرتے وقت کچھ نہیں بولااور تقسیم کے صحیح ہونے کو تسلیم کرلیا۔ اب بعد میں کہتا ہے کہ تقسیم صحیح نہیں ہوئی اور میرا کچھ حصہ دوسرے کے ہاتھ میں چلا گیا تو اس کی باتوں میں تضاد ہے اس لئے تقسیم صحیح نہ ہونے پر دو گواہ پیش کرے گا تب اس کی بات مانی جائے گی اور تقسیم توڑ کر دوبارہ تقسیم کی جائے گی۔ ہاں ! حصہ وصول کرنے سے پہلے کہتا کہ یہ تقسیم صحیح نہیں ہوئی تو بغیر بینہ کے بھی اس کی بات مان لی جاتی۔
اصول  مدعی کی بات میں تضاد ہوتو بینہ کے بغیر بات نہیں مانی جایء گی۔
لغت  استیفاء  :  وفی سے مشتق ہے، وصول کرنا۔
]٢٩٦٢[(٣١) اور اگر کہے کہ میں نے اپنا حق لے لیا ہے،پھر کہے کہ میں نے اس کا کچھ حصہ لیا ہے تو مد مقابل کے قول کا اعتبار ہوگا اس کی قسم کے ساتھ۔
وجہ  یہاں بھی مدعی کے قول میں تضاد ہے۔پہلے کہتا ہے کہ اپنا حق لے لیا تو اس کا مطلب یہی تھا کہ پورا حق لے لیا۔اور پورا حق لینے کا اقرار کرلے پھر بعد میں کہے کہ بعض حق لیا ہے تویہ تضاد ہے اس لئے بعض ہی لینے پر بینہ قائم کرنا چاہئے۔اور اس کے پاس صرف بعض ہی لینے پر بینہ قائم نہیں ہے اس لئے مدعی علیہ کی بات قسم کے ساتھ مان لی جائے گی (٢) حدیث گزر چکی ہے کہ مدعی کے پاس بینہ نہ ہوتو مدعی علیہ کی بات قسم کے ساتھ مان لی جائے گی۔ کتب ابن عباس الیَّ ان النبی ۖ قضی بالیمین علی المدعی علیہ (الف) (بخاری شریف، 

حاشیہ  :  (الف) حضرت ابن عباس نے مجھے یہ بات لکھی کہ حضورۖ نے مدعی علیہ پر قسم کے ذریعہ فیصلہ کیا۔

Flag Counter