Deobandi Books

شرح ثمیری شرح اردو قدوری جلد 4 - یونیکوڈ

225 - 485
واحد علی حدتہ وقسم بالقیمة ولا یعتبر بغیر ذلک]٢٩٦٠[(٢٩) واذا اختلف 

کمرے میں جا سکتے ہیں ۔اور اگر دیوار گر جائے تو پھر بھی زمین باقی رہتی ہے۔جبکہ بالا خانے میں اصطبل نہیں بنا سکتے، دوکان بنانا بھی مشکل ہے،بغیر سیڑھی کے کمرے میں نہیں جا سکتے۔اور اگر دیوار گر جائے تو بالا خانے کی زمین بھی ہاتھ نہیں آئے گی۔اس لئے بالا خانے کی قیمت کم ہے اور نچلے مکان کی قیمت زیادہ ہے۔بغیرحصہ داروں کی رضا مندی کے ایک کو بالا خانہ دے دینا اور دوسرے کو اتنا ہی لمبا چوڑا نچلا مکان دے دینا درست نہیں ہے۔ بلکہ ہر ایک کی قیمت علیحدہ علیحدہ لگائیں اور اس سے توافق کریں۔
وجہ  ایسے موقع پر قیمت لگانے کی دلیل یہ حدیث ہے۔عن ابی ھریرة  عن النبی ۖ قال من اعتق شقیصامن مملوکہ فعلیہ خلاصہ فی مالہ فان لم یکن لہ مال قوم المملوک قیمة عدل ثم استسعی غیر مشقوق علیہ (الف) (بخاری شریف، باب تقویم الاشیاء بین الشرکاء بقیمة عدل، ص ٣٣٩، نمبر ٢٤٩٢) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ قیمت لگا کر بھی فیصلہ کیا جا سکتا ہے۔
فائدہ   امام ابو حنیفہ کی رائے یہ بھی ہے کہ بالا خانے کی قیمت نچلے مکان سے آدھی ہونی چاہئے۔ چنانچہ اگر کسی کو نچلا مکان دس گز دیا تو دوسرے کو صرف بالا خانہ دینا ہوتو بیس گز دیں تب دونوں کے حصے برابر ہوںگے۔
اصول  وہ باطنی خوبیوں کا بھی اعتبار کرتے ہیں۔
امام ابو یوسف فرماتے ہیں کہ دونوں مکان ہیں اس لئے ایک جنس ہی ہیں۔ اس لئے بالا خانہ اور نیچے کا مکان برابر ہوںگے۔ اس لئے اگر نیچے کا مکان کسی حصے دار کو دس گز والا دیا تو اوپر والے کو بھی دس گز والا دیں تب بھی برابر شمار کیا جائے گا۔
وجہ  دونوں رہائش کے اعتبار سے برابر ہیں اس لئے گز سے برابر کر دینا کافی ہے۔ 
اصول  پہلے گزر چکا ہے کہ حضرت امام ابو یوسف صرف ظاہری برابری کافی سمجھتے ہیںکماقال فی الہدایة، کتاب القسمة ،ص ٤١٨)
لغت  سفل  :  نیچے کا مکان،  علو  :  دوسری منزل کا مکان،بالا خانہ۔
]٢٩٦٠[(٢٩)اگر اختلاف کیا تقسیم کرانے والوں نے ،پس گواہی دی تقسیم کرنے والوں نے تو دونوں کی گواہی قبول کی جائے گی۔
تشریح  جن لوگوں نے تقسیم کروایا تھا انہوں نے اختلاف کیا کہ ہم نے اپنے حصوں پر قبضہ نہیں کیا ہے ۔اور تقسیم کرنے والے دو قاسم نے گواہی دی کہ ان لوگوں نے اپنے اپنے حصوں پر قبضہ کر لیا ہے۔ تو تقسیم کرنے والوں کی گواہی قبول کی جائے گی۔
وجہ  یہاں دو نکتے ہیں اس لئے دونوں کی طرف توجہ دینا ضروری ہے۔ ایک نکتہ یہ ہے کہ تقسیم کرنے والے گواہی دے کر دبے زبان اپنا مطلب بھی نکال رہے ہیں کہ ہم نے تقسیم کا کام کیا ہے اس لئے ہم لوگ اجرت کے مستحق ہیں،اور داد کے مستحق ہیں۔اس اعتبار سے یہ لوگ اپنے لئے گواہی دے رہے ہیں۔ اور اپنے لئے گواہی مقبول نہیں اس لئے قاسم کی گواہی مقبول نہیں ہونی چاہئے۔ اور دوسرا نکتہ یہ ہے کہ تقسیم کرانے والوں کے خلاف گواہی دے رہے ہیں کہ ان لوگوں نے واقعی اپنے اپنے حصوں پر قبضہ کیا ہے اس اعتبار سے دوسرے کے خلاف گواہی ہوئی 

حاشیہ  :  (ب) آپۖ نے فرمایا کسی نے اپنے غلام کا کچھ حصہ آزاد کیا تو اس کے مال میں اس کا چھٹکارا دلوانا ہے۔ پس اگر اس کے پاس مال نہ ہو تو غلام کی انصاف والی قیمت لگائی جائے گی۔ پھر وہ سعایت کرکے ادا کرے گاجو اس پر مشقت نہ ہو۔

Flag Counter