Deobandi Books

شرح ثمیری شرح اردو قدوری جلد 4 - یونیکوڈ

223 - 485
القرعة فمن خرج اسمہ اولا فلہ السھم الاول ومن خرج ثانیا فلہ السھم الثانی ]٢٩٥٧[ (٢٦) ولا یُدخل فی القسمة الدراھم والدنانیر الا بتراضیھم]٢٩٥٨[(٢٧) فان قسم 

عن عمران بن حصین ان رجلا کان لہ ستة مملوکین لیس لہ مال غیرھم فاعتقھم عند موتہ فجزاء ھم رسول اللہ ۖ فاعتق اثنین وارق اربعة (الف) (ابن ماجہ شریف، باب القضاء بالقرعة ،ص ٣٣٦، نمبر ٢٣٤٥٢٣٤٧ بخاری شریف، باب ھل یقرع فی القسمة والاستھام فیہ ،ص ٣٣٩، نمبر ٢٤٩٣) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اطمینان قلب کے لئے قرعہ سے نام نکالا جا سکتا ہے۔
لغت  السھم  :  حصہ
]٢٩٥٧[(٢٦)اور تقسیم میں داخل نہیں ہوںگے دراہم اور دینار مگر حصہ داروں کی رضامندی سے۔
تشریح   مثلا ایک مکان ہے اور دس ہزار درہم ہے اور دوحصے دار ہیں۔ اس لئے مکان میں دونوں کو آدھا آدھا حصہ ملنا چاہئے اور درہم میں بھی آدھا آدھا یعنی پانچ پانچ ہزار ملنا چاہئے۔ لیکن ایک حصے دار کو مکان میں سے آدھاسے زیادہ دیدے اور اس کے بدلے دوسرے حصے دار کو پانچ ہزار درہم کے بجائے سات ہزار درہم دیدے تاکہ یہ دو ہزار مکان کی زیادتی کے بدلے میں ہو جائے تو یہ دونوں کی رضامندی کے بغیر قاضی نہیں کر سکتا۔ ہاں دونوں اس پر راضی ہوں تو درست ہے۔ 
وجہ  مکان الگ جنس ہے اور درہم دینار الگ جنس ہیں۔ اس لئے مکان کے ایک حصے کے بدلے میں درہم دے یہ تبدیل اور خریدنا ہے۔تمیز اور افراز نہیں ہے۔ اور بیع اور تبدیل کے لئے دونوں کی رضامندی چاہئے۔اس لئے یہاں بھی دونوں کی رضامندی چاہئے(٢) دوسری وجہ یہ ہے کہ بعض مکان اہم ہوتا ہے اس طرح کا مکان پھر نہیں مل سکتا اس لئے جس کو مکان کا حصہ زیادہ دیا جائے گا وہ خوش ہوگا اور دوسرا افسوس کرے گا۔ اور بعض مرتبہ درہم کی اہمیت زیادہ ہوتی ہے کیونکہ اس سے فوری طور پر کچھ خرید سکتا ہے اس لئے جس کو درہم ملے گا وہ خوش ہوگا۔ اس لئے ایسی صورت حال میں تبدیل کے لئے دونوں کی رضامندی ضروری ہے۔ البتہ مکان کا بعض حصہ ایسا ہو کہ اس کو دو ٹکڑوں میں تقسیم کر ہی نہیں سکتے ،لازمی طور پر ایک کو زیادہ دینا پڑ رہا ہے تو ایسی مجبوری کے درجے میں قاضی کو اختیار ہے کہ ایک کو مکان زیادہ دیدے اور اس کے بدلے میں دوسرے کو درہم یا دینار زیادہ دیدے(٢) حدیث میں اس کا اشارہ ہے۔سمعت النعمان بن بشیر عن النبی ۖ قال مثل القائم علی حدود اللہ والواقع فیھا کمثل قوم استھموا علی سفینة فاصاب بعضھم اعلاھا وبعضھم اسفلھا (ب) ( بخاری شریف، باب ہل یقرع فی القسمة والاستھام فیہ ،ص ٣٣٩، نمبر ٢٤٩٣) اس حدیث میں سب کو کشتی کے اوپر کے حصے نہیں دیئے اور نہ سب کو کشتی کے نیچے کے حصے دیئے۔ جس سے معلوم ہوا کہ مجبوری کے درجے میں تبدیل کی جا سکتی ہے۔ 
]٢٩٥٨[(٢٧)پس اگر مکان تقسیم کر دیا گیا ورثہ کے درمیان اور ان میں سے ایک کی نالی پڑ جائے دوسرے کی ملکیت میں یا راستہ ہو جائے 

حاشیہ  :  (الف) حضرت عمران بن حصین فرماتے ہیں کہ ایک آدمی کے چھ غلام تھے اور ان کے علاوہ کوئی مال نہیں تھا اور انہوں نے موت کے وقت ان سبھوں کو آزاد کر دیا تو حضورۖ نے ان کا حصہ کیا اور دو کو آزاد کیا اور چار کو غلام برقرار رکھا(ب) آپۖ نے فرمایا جو اللہ کی حدود پر قائم ہے اور جو اللہ کی حدود میں واقع ہے ایسا ہے کہ ایک قوم نے کشتی میں قرعہ ڈالا پس بعض کو اوپر کا حصہ ملا اور بعض کو نیچے کا حصہ۔

Flag Counter