Deobandi Books

شرح ثمیری شرح اردو قدوری جلد 4 - یونیکوڈ

218 - 485
الشرکائ]٢٩٤٩[(١٨) واذا حضروا رثان عند القاضی واقاما البینة علی الوفاة وعدد الورثة والدار فی ایدیھم ومعھم وارث غائب قسمھا القاضی بطلب الحاضرین وینصب 

تشریح  ایسی چیز جو ایک ہی ہو اور تقسیم کرنے کے بعد کسی کے لئے قابل استفادہ نہ رہے جیسے غسل خانہ،کنواں،پن چکی،ان چیزوں کو دو ٹکڑوں میں تقسیم کردیں تو استفادے کے قابل نہیں رہتی ہیں۔ اس لئے شرکاء کی رضامندی کے بغیر تقسیم نہ کرے۔ البتہ ایک شکل ہے کہ اس کی قیمت لگا کر کسی ایک کو دیدے اور اس سے آدھی قیمت وصول کرلے۔
وجہ  قیمت لگانے کی دلیل یہ حدیث ہے۔ عن عبد اللہ بن عمر ان رسول اللہ ۖ قال من اعتق شرکا لہ فی عبد فکان لہ مال یبلغ ثمن العبد قوم العبد علیہ قیمة عدل فاعطی شرکائہ حصصھم وعتق علیہ العبد (الف) (بخاری شریف، باب اذا اعتق عبدا بین اثنین او امة بین الشرکاء ، ص ٣٤٢، نمبر ٢٥٢٢ مسلم شریف، باب من اعتق شرکاء لہ فی عبد ، ص ٤٩١،نمبر ١٥٠١) اس حدیث میں ہے کہ غلام کی قیمت لگائی جائے گی اور پھر حصہ داروں کو قیمت دی جائے گی۔جس سے معلوم ہوا کہ جہاں پوری چیز تقسیم نہیں ہو سکتی ہو وہاں چیز کی قیمت لگا کر حصہ داروں کو دو اور توافق پیدا کردو۔
اصول  جہاں تقسیم کرنے میں دونوں کو نقصان ہو وہاں دونوں کی رضامندی کے بغیر تقسیم نہیں کی جائے گی۔
لغت  حمام  :  غسل خانہ،  بئر  :  کنواں،  رحی  :  پن چکی،جس سے پانی نکالتے ہیں۔
]٢٩٤٩[(١٨)اور دو وارث قاضی کے پاس حاضر ہوں اور وفات پر بینہ قائم کریں اور ورثہ کی تعداد پر اور مکان ان کے قبضے میں ہو اور ان کے ساتھ غائب وارث ہو پھر بھی قاضی حاضرین کی طلب پر تقسیم کردے۔اور غائب کے لئے ایک وکیل مقرر کردے جو اس کے حصے پر قبضہ کرے۔
تشریح   دو وارث قاضی کے پاس حاضر ہو کر دو بات کرے۔ایک تو مورث کی وفات پر بینہ قائم کرے کہ واقعی وہ مر چکا ہے۔ دوسری بات یہ کرے کہ ورثہ کی کل تعداد کتنی ہے اس پر گواہی قائم کرے۔اور تیسری بات یہ ہے کہ گھر مطالبہ کرنے والوں کے قبضے میں ہو۔ اس صورت میں وارث غائب ہو پھر بھی قاضی گھر تقسیم کر دے گا اور جو وارث غائب ہو اس کے لئے وکیل مقرر کرے تاکہ وہ غائب کے حصے پر قبضہ کرکے اس کی حفاظت کرے اور جب غائب آجائے تو اس کے حوالے کردے۔
وجہ  ان چار شقون کی وجوبات یہ ہیں (١) تقسیم کا مطالبہ کرنے والے دو آدمی اس لئے ہوں کہ وہ دو گواہ کے درجے میں ہو جائیںگے اور یقین کیا جا سکے گا کہ واقعی مورث مر چکا ہے۔ اور ورثہ کی تعداد اتنی ہی ہے ۔اور اگر مطالبہ کرنے والا ایک آدمی ہو تو یقین نہیں کیا جا سکتا ہے کہ مورث کی موت ہو چکی ہے۔ اور ورثہ کی تعداد اتنی ہی ہے۔کیونکہ شہادت کی تعداد ایک نہیں ہوتی دو ہوتی ہے(٢) ایک نکتہ یہ بھی ہے کہ ایک مدعی اور دوسرامدعی علیہ کے درجے میں ہوگا۔میت جو غائب ہے اس غائب کے خلاف فیصلہ نہیں ہوگا کیونکہ غائب پر فیصلہ کرنا جائز نہیں ہے۔اس لئے 

حاشیہ  :  (الف) آپۖ نے فرمایا کوئی مشترکہ غلام آزاد کرے اور اس کے پاس اتنا مال ہو کہ غلام کی قیمت ہو جائے تو اس پر غلام کی عادل قیمت لگائی جائے گی ۔اور اس کے شریکوں کو ان کے حصے دیئے جائیںگے۔اور پورا غلام آزاد کرنے والے پر آزاد ہوگا۔

Flag Counter