Deobandi Books

شرح ثمیری شرح اردو قدوری جلد 4 - یونیکوڈ

217 - 485
من صنف واحد ولا یقسم الجنسان بعضھا فی بعض الا بتراضیھما ]٢٩٤٧[(١٦)وقال ابو حنیفة رحمہ اللہ تعالی لایقسم الرقیق ولا الجواھر وقال ابو یوسف ومحمد رحمھما الہ تعالی یقسم الرقیق]٢٩٤٨[(١٧) ولا یقسم حمام ولا بئر ولا رحی الا ان یتراضی 

دیدے اور دوسرے کو چالیس کیلو گیہوں دے ایسا نہیں کر سکتا۔ بلکہ یوں کر سکتا ہے کہ پانچ کپڑے ایک کو اور پانچ کپڑے دوسرے کو،اسی طرح بیس کیلو گیہوں ایک کو اور بیس کیلو گیہوں دوسرے کو دے۔ہاں اگر دونوں راضی ہوں تو ایسا کرسکتا ہے کہ ایک کو دس کپڑے دے اور دوسرے کو چالیس کیلو گیہوں دے۔
وجہ  ایک حصے دار کو کپڑا دینا اور دوسرے کو گیہوں دینا یہ علیحدہ کرنا  اور تمیز کرنا نہیں ہے بلکہ کپڑے کے بدلے گیہوں کو تبدیل کرنا اور گویا کہ بیچنا ہے۔اور تبدیل کرنے اور بیچنے کے لئے دونوں کی رضامندی چاہئے۔ اس لئے یہاں دونوں کی رضامندی چاہئے۔
اصول  جہاں افراز اور تمیز ہو وہاں دونوں کی رضامندی ضروری نہیں صرف ایک کے مطالبے پر تقسیم کردی جائے گی۔اور جہاں تبدیل ہو وہاں دونوں کی رضامندی ضروری ہے۔
]٢٩٤٧[(١٦)امام ابو حنیفہ فرماتے ہیں کہ غلام اور جوہر تقسیم نہ کرے،اور امام ابو یوسف اور محمد نے فرمایا تقسیم کیا جائے گا غلام کو۔
تشریح   امام ابو حنیفہ فرماتے ہیں کہ مثلا اگر دو غلام ہوں تو بغیر رضامندی کے دو حصہ داروں کو ایک ایک غلام تقسیم کرکے نہ دے۔
وجہ  وہ فرماتے ہیں کہ غلام ظاہری اعتبار سے ایک جیسے ہوں لیکن باطنی خوبی کے اعتبار سے بہت فرق ہوتا ہے۔ مثلا ایک ہوشیار ہے دوسرا غبی ہے۔ ایک پڑھا لکھا ہے دوسرا جاہل ہے جس کی وجہ سے دونوں کی قیمت میں زمین آسمان کا فرق ہو جاتا ہے۔ اس لئے بغیر دونوں کی رضامندی کے ایک ایک غلام تقسیم نہ کرے۔ البتہ دونوں کی قیمت لگا کر توافق کردے۔یہی حال جواہر کا ہے۔اس لئے کہ دو جواہر ظاہری طور پر ایک طرح کے ہوں پھر بھی باطنی خوبی کے اعتبار سے بہت بڑا فرق ہو جاتا ہے۔ اور دونوں کی قیمت میں بہت تفاوت ہو جاتا ہے۔ اس لئے بغیر حصہ داروں کی رضامندی کے ایک ایک کرکے تقسیم نہ کرے۔البتہ سب کی قیمت لگا کر توافق کرے۔
اصول  امام اعظم کے نزدیک انسان اور جواہر میں باطنی خوبی کا اعتبار ہے۔
فائدہ   امام صاحبین کے نزدیک یہ ہے کہ غلاموں کو بغیر حصہ داروں کی رضامندی کے بھی تقسیم کرسکتا ہے۔
وجہ  وہ فرماتے ہیں کہ ظاہری طور پر دو غلام ایک طرح ہوں اتنا ہی کافی ہے کہ دونوں کو ایک ایک غلام دے دیا جائے۔ باطنی خوبی کو ملحوظ نہ رکھا جائے،اور اس کی وجہ سے قیمت میں جو تفاوت ہوگا اس کو بھی ملحوظ نہیں رکھا جائے گا۔جس طرح دو بکریاں ہوں تو دونوں کو ایک ایک بکری دے دی جاتی ہے اور بکری کی باطنی خوبی ملحوظ نہیں رکھی جاتی ہے۔
اصول  صاحبین کے نزدیک یہ اصول یہ ہے کہ ظاہری موافقت کافی ہے باطنی خوبی کو ملحوظ نہ رکھا جائے ورنہ تقسیم کرنا مشکل ہوگا۔
]٢٩٤٨[(١٧)اور نہیں تقسیم کیا جائے گا حمام اور نہ کنواں اور نہ پن چکی۔

Flag Counter