Deobandi Books

شرح ثمیری شرح اردو قدوری جلد 4 - یونیکوڈ

216 - 485
صاحب الکثیر قسم وان طلب صاحب القلیل لم یقسم]٢٩٤٥[ (١٤) وان کان کل واحد منھما یستضرُّ لم یقسمھا الا بتراضیھما]٢٩٤٦[(١٥) ویقسم العروض اذا کانت 

نقصان سے بچائے، اس کے لئے حدیث یہ ہے۔عن ابن عباس  قال قال رسول اللہ ۖ لاضرر ولاضرار (الف) (ابن ماجہ شریف ، باب من بنی فی حقہ مایضر بجارہ ،ص ٣٣٥، نمبر ٢٣٤١ دار قطنی ، کتاب البیوع، ج ثالچ، ص ٦٤، نمبر ٣٠٦٠) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نہ کسی کو نقصان دے اور نہ نقصان اٹھائے۔
لغت  یستضر  :  ضر سے مشتق ہے،نقصان اٹھائے۔
]٢٩٤٥[(١٤)اور اگر دونوں میں سے ہر ایک کو نقصان ہو تو اس کو تقسیم نہ کرے مگر دونوں کی رضامندی سے۔
تشریح  کوئی ایسی چیز ہے جس کو تقسیم کرنے کے بعد دونوں کو نقصان ہوگا تو دونوں راضی ہوں تو تقسیم کردے۔ اور ایک حصہ دار کہے اور دوسرا نہ کہے تو تقسیم نہ کرے۔مثلا ایک چکی دو آدمیوں کے درمیان مشترک ہے۔ اس کو تقسیم کرنے کے بعد کوئی بھی فائدہ نہیں اٹھا سکے گا،دونوں کو نقصان ہوگا ۔اس لئے دونوںاس نقصان پر راضی ہوں تو تقسیم کردی جائے گی۔
وجہ  یہاں دونوں کو نقصان ہے اس لئے دونوں کی رضامندی سے تقسیم کردیںگے۔قاعدہ وہی ہے لا ضرر ولا ضرار (٢)  حدیث مرسل میں ہے۔عن محمد بن ابی بکر یعنی ابن حزم عن ابیہ عن النبی ۖ قال لا تعضیة علی اہل المیراث الا ما حمل القسم ،یقول لا یبعض علی الوارث ... قال ابو عبید قولہ لا تعضیة فی میراث یعنی ان یموت المیت ویدع شیئا ان قسم بین ورثتہ اذا اراد بعضھم القسمة کان فی ذلک ضرر علیہ او علی بعضھم یقول فلا یقسم والتعضیة التفریق (ب) (سنن للبیہقی، باب مالا یحتمل القسمة ، ج عاشر، ص ٢٢٥، نمبر ٢٠٤٤٦ ٢٠٤٤٧) اس حدیث مرسل میں ہے کہ اگر تقسیم سے نقصان ہوتاہو تو دونوں کی رضامندی کے بغیر تقسیم نہ کرے۔
]٢٩٤٦[(١٥)تقسیم کردے سامان جبکہ ایک ہی قسم کا ہو،اور دو جنسوں کو تقسیم نہ کرے بعض کو بعض میں مگر دونوں کی رضامندی سے۔
تشریح  اگر سامان ایک ہی قسم کا ہو مثلا چالیس کیلو گیہوں ہوتو بغیر دونوں کی رضامندی کے بھی تقسیم کردے۔ اور دونوں حصہ داروں کو بیس بیس کیلو گیہوں دیدے۔
وجہ  تمام گیہوں ہی ہیں اور ایک ہی جنس کا سامان ہے،اور گیہوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔ اور وزن میں دونوں کو برابر یعنی بیس بیس کیلو دیا گیا ہے اس لئے کسی کو کچھ نقصان نہیں ہوگا۔ اس لئے ایک راضی نہ بھی ہو تو قاضی جبرا تقسیم کردے۔
لیکن اگر دو جنس کے سامان ہوں مثلا دس کپڑے ہیں اور چالیس کیلو گیہوں ہے۔ اب بغیر دونوں کی رضامندی کے ایک حصے دار کو کپڑے 

حاشیہ  :  (الف)آپۖ نے فرمایا نہ نقصان اٹھاؤ اور نہ نقصان دو(ب)آپۖ نے فرمایا اہل میراث پر تفریق نہیں ہے۔ البتہ جو تقسیم میں ہوجائے وہی۔ حضرت ابو عبید اللہ لاتعضیة فی میراث کا مطلب یہ بتاتے ہیں کہ آدمی مرے اور کچھ وراثت چھوڑے۔ اب بعض وارث تقسیم چاہتے ہیں لیکن اس سے ورثہ کا نقصان ہے اور بعض کہتے ہیں کہ تقسیم نہ کریں تو تقسیم نہ کی جائے۔ تعضیة کا معنی تقسیم کرنا ہے۔

Flag Counter