Deobandi Books

شرح ثمیری شرح اردو قدوری جلد 4 - یونیکوڈ

212 - 485
یکون عدلا مامونا عالما بالقسمة]٢٩٣٥[(٤) ولا یجبر القاضی الناس علی قاسم واحد ]٢٩٣٦[(٥) ولا یترک القُسَّام یشترکون]٢٩٣٧[(٦) واجرة القُسّام علی عدد رؤسھم عند ابی حنیفة رحمہ اللہ تعالی وقالا رحمھما اللہ تعالی علی قدر الاَنصبائ۔ 
 
کیف ینبغی للقاضی ان یکون ، ج ثامن ،ص ٢٩٨، نمبر ١٥٢٨٦) اس اثر میں ہے کہ ماقبل کے علوم کو جاننے والاتب قاضی بنایا جائے ۔اور اسی پر قیاس کرکے کہا جائے گا کہ تقسیم کا علم ہوتو قاسم بنایا جائے۔
]٢٩٣٥[(٤) قاضی لوگوں کو ایک قاسم پر مجبور نہ کرے۔
وجہ  اگر کام بہت ہوا اور قاسم ایک ہی ہو تو لوگوں کو ایک قاسم سے خدمت لینے میں دقت ہوگی۔اس لئے ایک قاسم سے تقسیم کرنے پر مجبور نہ کرے (٢) ایک قاسم زیادہ اجرت طلب کرے گا جو عوام کے لئے نقصان دہ چیز ہے اس لئے ایک قاسم پر مجبور نہ کرے (٣) اثر میں اس کا اشارہ ہے۔ عن موسی بن طریف عن ابیہ قال مر علی برجل یحسب بین قوم باجر فقال لہ علی انما تأکل سحتا (الف) (مصنف عبد الرزاق ، باب الاجر علی تعلیم الغلمان وقسمة الاموال ، ج ثامن ، ص ١١٥، نمبر ١٤٥٣٧) اس اثر میں ہے کہ لوگ اپنے اپنے قاسم سے اجرت دے کر حساب کرواتے اور تقسیم کرواتے تھے۔جس سے معلوم ہوا کہ ایک قاسم متعین کرنا ضروری نہیں ہے۔
]٢٩٣٦[(٥)قاسموں کو شرکت میں کام کرنے کے لئے نہ چھوڑے۔
تشریح   چار پانچ قاسم ملکر اپنی کمپنی بنالیں اور شرکت میں کام کریں ایسا نہ کرنے دیں بلکہ ہر قاسم اپنا الگ الگ اجرت پر کام کرے۔
وجہ   الگ الگ کام کریںگے تو آگے بڑھ کر کام کرنے اور مزدوری حاصل کرنے کے لئے سستے میں کام کریںگے جس سے عوام کو فائدہ ہوگا۔اور کمپنی بنا کر کام کریںگے تو ایک ریٹ ہوگا اور مہنگے داموں میں کام کریںگے۔اس لئے قاضی کو چاہئے کہ کمپنی بنانے نہ دیں اور ملکر شرکت میں کام کرنے نہ دیں۔ 
اصول  یہ اس اصول پر ہے کہ ہر وہ کام جس سے عوام کو نقصان ہوتا ہو اس کے روکنے کی کوشش کرے۔
]٢٩٣٧[(٦)اور قاسموں کی اجرت حصہ داروں کی تعداد کے اعتبار سے ہے امام ابو حنیفہ کے نزدیک اور حصے کے حساب سے ہے صاحبین کے نزدیک۔
تشریح   امام صاحب فرماتے ہیں جتنے لوگ حصہ دار ہیں قاسم کی اجرت ہر ایک پر برابر ہوگی چاہے اس کو حصہ کم ملے یا زیادہ۔
وجہ  وہ فرماتے ہیں کہ قاسم کو ہرایک کا حساب کرنا ہوگا اور ہر ایک کا حصہ دوسرے سے متمیز کرنا ہوگا۔اور اس میں ہر ایک کے لئے برابر محنت کرنی پڑے گی اس لئے تمام حصہ داروں پر برابر اجرت ہوگی۔ مثلا زید مرا اور اس کی وراثت ایک بیوی،ایک بیٹا اور ایک بیٹی کے درمیان تقسیم کرنی ہے اور قاسم کی اجرت تیس درہم ہے تو ہر ایک پر دس دس درہم لازم ہوں گے۔

حاشیہ  :  (الف)حضرت علی کا ایک آدمی پر گزر ہوا ،وہ اجرت لیکر قوم کے درمیان حساب کر رہاتھا تو حضرت علی نے فرمایا یہ سود کھارہا ہے۔

Flag Counter