Deobandi Books

شرح ثمیری شرح اردو قدوری جلد 4 - یونیکوڈ

211 - 485
اجرة ]٢٩٣٣[ (٢) فان لم یفعل نصب قاسما یقسم بالاجرة]٢٩٣٤[ (٣) ویجب ان 

شریف، نمبر٣٠١٢) اس حدیث میں ہے کہ خیبر کا آدھا حصہ نوائب الناس کے لئے رکھا گیا تھا ۔اور اموال تقسیم کرنا ایک بہت بڑا کام ہے اور نوائب الناس میں داخل ہے۔ اس لئے اس کے لئے بھی اجرت مقرر کی جا سکتی ہے (٣) اثر میں ہے۔ان عمر رزق شریحا وسلمان بن ربیعة الباہلی علی القضاء (الف) مصنف عبد الرزاق، باب جعل یؤخذ علی القضاء رزق ،ج ثامن ، ص ٢٩٧، نمبر١٥٢٨٢) اس اثر سے بھی معلوم ہوا کہ قاضی کی طرح قاسم کو بھی روزی دی جا سکتی ہے (٤) اثر میں ہے۔ فسیأکل آل ابی بکر من ھذا المال واحترف للمسلمین  فیہ (ب) (سنن للبیہقی، باب مایکرہ للقاضی من الشراء والبیع الخ ،ج عاشر، ص ١٨٣، نمبر ٢٠٢٨٨) 
]٢٩٣٣[(٢) اور اگر یہ نہ کرسکے تو مقرر کرے تقسیم کرنے والے کو جو اجرت لیکر تقسیم کرے۔
تشریح   اگر قاضی بیت المال سے اجرت دے کر قاسم مقرر نہ کر سکے تو ایسے قاسم کو مقرر کرے جو تقسیم کرنے والوں سے اجرت لیکر تقسیم کرے۔
وجہ  تھوڑا بہت تقسیم کرنا ہو تو مفت تقسیم کر دے گا لیکن کسی کو بار بار یہ کام پیش آئے تو مفت تقسیم نہیں کرے گا۔ اس لئے تقسیم کروانے والوں سے اجرت لے۔اور بہتر یہ ہے کہ مناسب اجرت لے۔ اجرت لینے کی دلیل اوپر گزر چکی ہے(مصنف عبد الرزاق،نمبر ١٥٢٨١)
]٢٩٣٤[(٣)اور ضروری ہے کہ قاسم عادل ہو،امین ہو اور تقسیم کو جاننے والا ہو۔
وجہ  عادل نہیں ہوگا تو تقسیم میں ظلم کرے گا اس لئے تقسیم کرنے والے کا عادل ہونا ضروری ے(٢) آیت میں ہے۔ فجزاء مثل قتل من النعم یحکم بہ ذوا عدل منکم (ج) (آیت ٩٥ ، سورة المائدة ٥) اس آیت میں ہے کہ عادل آدمی فیصلہ کرے اس لئے تقسیم کرنے والا بھی عادل ہو۔
امین ہو اس کی دلیل یہ آیت ہے۔ ان خیر من استأجرت القوی الامین(د) (آیت ٢٦، سورة القصص ٢٨) اس آیت میں اشارہ ہے کہ کسی کو تقسیم کرنے کے لئے اجرت پر لے تو وہ امین ہو۔کیونکہ امین نہیں ہوگا تو تقسیم صحیح نہیں کرے گا۔ اور ہو سکتا ہے کہ مال میں خیانت کرے۔
اور تقسیم کرنے کا علم ہو اس کی ضرورت اس لئے ہے کہ اگر وراثت کا علم نہ ہو یا تقسیم کرنے کا علم نہ ہو تو کیسے تقسیم کرے گا (٢) اثر میں ہے۔ قال عمر بن عبد العزیز لاینبغی ان یکون قاضیاحتی تکون فیہ خمس آیتھن اخطأتہ کانت فیہ خللا یکون عالما بما کان قبلہ ،مستشیرا لاھل العلم، ملغیا للرثغ یعنی الطمع،حلیما عن الخصم، محتملا للائمة (ہ) (مصنف عبد الرزاق ، باب 

حاشیہ  :  (الف)حضرت عمر نے حضرت شریح اور سلمان بن ربیعہ باہلی کو قضا پر وظیفہ دیا (ب) ّل ابو بکر مسلمان کے اس مال سے کھائیںگے اور مسلمان کے لئے کام کریںگے(ج) جیسا جانور شکار کیا اسی کے مثل پالتو جانور کا فیصلہ کیا جائے گا اور دو عادل آدمی اس کا فیصلہ کریںگے (د) بہترین آدمی جس کو آپ اجرت پر لیں وہ ہے جو طاقتور اور امین ہو (ہ) حضرت عمر بن عبد العزیز نے فرمایا قاضی بننا مناسب نہیں ہے یہاں تک کہ اس میں پانچ صفتیں ہوں۔ اور کسی ایک کی کمی بہت بڑی کمی ہوگی۔ایک تو یہ کہ ماقبل کی باتوں کو جاننے والا ہو۔ دوسری یہ کہ اہل علم سے مشورہ کرنے والا ہو۔ تیسری یہ کہ لالچ سے دور ہو۔چوتھی یہ کہ جھگڑے والے کے ساتھ بردبار ہو۔اور پانچویں یہ کہ ملامت کو برداشت کرنے والا ہو۔

Flag Counter