Deobandi Books

شرح ثمیری شرح اردو قدوری جلد 4 - یونیکوڈ

213 - 485
]٢٩٣٨[(٧) واذا حضر الشرکاء عند القاضی وفی ایدیھم دار وضیعة وادّعوا انھم ورثوھا عن فلان لم یقسّمھا القاضی عند ابی حنیفة رحمہ اللہ تعالی حتی یقیموا البینة 

صاحبین کے نزدیک جس کو جتنا حصہ ملے گا اسی حساب سے اس پر اجرت لازم ہوگی۔ مثال مذکور میں بیوی کو شوہر کا آٹھواں ملے گا اس لئے تیس درہم کا آٹھواں ٣٠ ٧٥٨.٣ (تین درہم پچھتر پیسے بیوی پر اجرت ہوگی۔اور بیٹے کو بیوی کے وراثت لینے کے بعد بیٹی کا دوگنا ملے گا اس لئے بیٹے کو تیس درہم میں سے ٥٠.١٧ (سترہ درہم پچاس پیسے اور بیٹی کو ایک گنا ملے گا اس لئے بیٹی کو ٧٥.٨ (آٹھ درہم پچھتر پیسے اجرت لازم ہوگی۔ حساب کلکیولیٹر پر کرلیں۔
وجہ  وہ فرماتے ہیں کہ جس کو جتنا حصہ ملے گا اس اعتبار سے قاسم کو محنت کرنی پڑے گی اس لئے حصے ہی کے اعتبار سے اس پر اجرت لازم ہوگی۔
لغت   انصباء  :  نصیب کی جمع ہے حصہ۔
]٢٩٣٨[(٧)اگر شریک لوگ قاضی کے پاس حاضر ہوں اور ان کے قبضے میں گھر ہو یا زمین ہو اور دعوی کریں کہ ہم ان کے وارث ہیں فلاں سے تو امام ابو حنیفہ کے نزدیک قاضی اس کو تقسیم نہیں کرے گا یہاں تک کہ اس کے مرنے پر بینہ قائم کریں اور ورثہ کی تعداد پر ۔اور صاحبین  فرماتے ہیں کہ اس کو تقسیم کردے ان کے اعتراف کرنے پر۔
تشریح   کچھ لوگ قاضی کے پاس آکر یوں کہے کہ یہ زمین ہے یا یہ گھر ہے یہ فلاں آدمی کا تھا،اب وہ مرگیا ہے اور ہم لوگ اس کے وارث ہیں۔اس کو ہمارے درمیان تقسیم کردیں تو امام ابو حنیفہ فرماتے ہیں کہ قاضی کے لئے اس وقت تک تقسیم کرنا صحیح نہیں ہے جب تک کہ فلاں آدمی کے مرنے پر گواہ قائم نہ کریں۔ اور اس بات پر بھی گواہ قائم کریں کہ ہم ہی لوگ وارث ہیںہمارے علاوہ اور کوئی وارث نہیں ۔ ان دونوں باتوں پر گواہ قائم کرے تب ان کے درمیان گھر یا زمین تقسیم کردے۔
وجہ  زمین خود محفوظ ہے، زمانۂ دراز کے بعد بھی اس میں کوئی زیادہ خامی نہیں آتی اور یہی حال گھر کا ہے۔اس لئے سال چھ مہینے تاخیر کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اس لئے بینہ قائم کروا کر پوری تحقیق کر لینی چاہئے (٢) جب تک مال تقسیم نہیں ہوا ہے تو یہ میت کا مال شمار کیا جاتا ہے اس لئے تقسیم کرنا گویا کہ میت کے خلاف فیصلہ کرنا ہے۔اور کسی کے خلاف فیصلہ کرنے کے لئے گواہ چاہئے۔ اس لئے بھی گواہ قائم کرنا ضروری ہے تاکہ یہ بات بھی واضح ہوجائے کہ فلان مر چکا ہے اور یہ بھی کہ ان کے علاوہ وارث نہیں ہے۔ورنہ ابھی تقسیم کردیں اور بعد میں کوئی وارث ظاہر ہو جائے تو قضا توڑنا پڑے گا اس لئے گواہ قائم کرے۔
صاحبین فرماتے ہیں کہ تقسیم کردے۔
وجہ  کیونکہ مسلمان ظاہری طور پر عادل ہیں۔ اثر میں ہے۔کتب عمر بن الخطاب الی ابی موسی الاشعری ... المسلمون عدول بعضھم علی بعض (الف) (دار قطنی ، باب کتاب عمر الی موسی الاشعری ، ج رابع، ص ١٣٢، نمبر ٤٤٢٥) جب مسلمان ظاہری طور پر 

حاشیہ  :  (الف)حضرت عمر نے حضرت ابو موسی اشعری کو خط لکھا اس میں لکھا ... مسلمان بعض بعض پر عادل ہیں۔

Flag Counter