Deobandi Books

شرح ثمیری شرح اردو قدوری جلد 4 - یونیکوڈ

204 - 485
]٢٩٢٢[ (٣٥)ولا یقضی القاضی علی غائب الا ان یحضر من یقوم مقامہ۔

سے بھی معلوم ہوا کہ شریعت کے خلاف ہوتو رد کردیا جائے گا۔
]٢٩٢٢[(٣٥)قاضی غائب پر فیصلہ نہ کرے مگر یہ کہ اس کا کوئی قائم مقام حاضر ہو۔
تشریح  پہلے تفصیل گزر چکی ہے کہ مدعی علیہ غائب ہو تو اس پر فیصلہ نہ کیا جائے۔ہاں ! اس کا کوئی قائم مقام موجود ہو ،مثلا اس کا وکیل موجود ہو یا وصی موجود ہویا ایسا سبب ہو جو غائب پر بھی لگتا ہواور حاضر پر بھی لگتا ہو یا بار بار خبر دینے کے باوجود حاضر نہ ہوتا ہو،مثلا عورت غائب شوہر پر نفقہ کا دعوی کر رہی ہو اور شوہر زمانے سے غائب ہو اور عورت کے لئے نفقے کی کوئی صورت نہ ہو تو غائب پر فیصلہ کیا جاسکتا ہے۔
وجہ  حدیث گزر چکی ہے۔عن علی ... فقال ان اللہ سیھدی قلبک ویثبت لسانک فاذا جلس بین یدیک الخصمان فلا تقضین حتی تسمع من الآخر کما سمعت من الاول فانہ احری ان یتبین لک القضاء (الف) (ابو داؤد شریف، باب کیف القضاء ، ص ١٤٨، نمبر ٣٥٨٢) ترمذی شریف ، باب ماجاء فی القاضی لا یقضی بین الخصمین حتی یسمع کلامھما ، ص٢٤٨، نمبر ١٣٣١)اس حدیث میں ہے کہ مدعی علیہ کی بات بھی سنو تب فیصلہ کرو۔اور یہ اسی وقت ہوسکتا ہے جب مدعی علیہ حاضر ہو یا اس کا قائم مقام حاضر ہواور اپنی بات سنا سکے (٣) اثر میں ہے۔سمعت شریحا یقول لایقضی علی غائب (ب) (مصنف عبد الرزاق، باب لایقضی علی غائب، ج ثامن ، ص ٣٠٤، نمبر ١٥٣٠٦)  
فائدہ   امام شافعی فرماتے ہیں کہ مدعی علیہ مجلس قضا سے غائب ہو یا شہر سے غائب ہو یا شہر میں چھپ گیا ہو تو غائب مدعی علیہ پر فیصلہ کیا جا سکتا ہے۔
وجہ  اگر ایسا نہ کریں تو مدعی کا حق ضائع ہوگا اور مدعی علیہ خواہ مخاہ ٹال مٹول کرتا رہے گا(٢) حدیث میں ہے۔ عن عائشة ان ھندا قالت للنبی ۖ ان ابا سفیان رجل شحیح واحتاج ان آخذ من مالہ ،قال ۖ خذی مایکفیک وولدک بالمعروف(ج) (بخاری شریف، باب القضاء علی الغائب ، ص ١٠٦٤، نمبر ٧١٨٠ مسلم شریف، باب قضیة ہند ، ج ٢، ص ٧٥، نمبر ١٧١٤)اس حدیث میں حضرت سفیان حاضر نہیں تھے پھر بھی ان کے مال سے نفقہ لینے کا فیصلہ کیا گیا۔جس سے معلوم ہوا کہ غائب پر فیصلہ کیا جا سکتا ہے۔

حاشیہ  :  (پچھلے صفحہ سے آگے) سنت رسولۖ کے خلاف یا کسی اجماع کے خلاف تو اس کے بعد کا قاضی اس کو رد کردے گا۔اور اگر لوگوں کی رائے سے ہو تو رد نہیں کرے گا بلکہ جو کچھ اس نے کہا اس کو جاری رکھے گا۔کیونکہ وہ شریعت کے خلاف نہیں ہے(الف) آپۖ نے حضرت علی سے فرمایا آپ کے دل کو اللہ ہدایت دے گا اور زبان کو ثابت رکھے گا۔پس جب دونوں فریق تمہارے سامنے بیٹھیں تو اس وقت فیصلہ نہ کریں جب تک دوسرے کی بات نہ سن لیں۔ اس لئے یہ زیادہ مناسب ہے کہ آپ کے سامنے قضا واضح ہو جائے(ب) حضرت شریح فرماتے تھے کہ غائب پر فیصلہ نہ کرے(ج) حضرت ہند نے حضورۖ سے کہا کہ ابوسفیان بخیل آدمی ہیں اور مجھے اس کا مال لینے کی ضرورت پڑتی ہے تو کیا لے لوں ؟ آپۖ نے فرمایا اتنا لو جتنا مناسب انداز میں تمہیں اور تمہاری اولاد کے لئے کافی ہو۔

Flag Counter