Deobandi Books

شرح ثمیری شرح اردو قدوری جلد 4 - یونیکوڈ

203 - 485
یکون قولا لادلیل علیہ۔

تشریح   اس میں دو مسئلے ہیں۔ ایک مسئلہ تو یہ ہے کہ پہلے قاضی کا فیصلہ قرآن،حدیث اور اجماع کے خلاف نہ ہو تو مکتوب الیہ قاضی اس کو نافذ کرے گا۔اور دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ قرآن، حدیث اور اجماع کے خلاف ہوتو اس فیصلے کو رد کردے۔
وجہ   (١) جب شریعت کے موافق ہے تو رد کرنے سے کیا فائدہ۔کیونکہ پہلے قاضی کا بھی اجتہاد ہے اور اس قاضی کا بھی اجتہاد ہے۔ اور پہلے قاضی کے اجتہاد کے ساتھ فیصلہ بھی ہو چکا ہے اس لئے اس کو توڑنا اچھا نہیں ہے،نافذ کردے (٢) اثر میں ہے۔ حدثنا عبید اللہ بن محرز جئت بکتاب من موسی بن انس قاضی البصرة واقمت عندہ البینة ان لی عند فلان کذا وکذا وھو بالکوفة وجئت بہ القاسم بن عبد الرحمن فاجازہ (الف) (بخاری شریف ، باب الشہادة علی الخط المختوم الخ ، ص ١٠٦٠، نمبر ٧١٦٢) اس اثر میں قاسم بن عبد الرحمن نے حضرت موسی بن انس کے فیصلے کو نافذ فرمایا (٣) اثر میں ہے۔ عن ابن سیرین قال سمعت شریحا یقول انی لا ارد قضاء کان قبلی (ب) (مصنف عبد الرزاق، باب ھل یرد قضاء القاضی؟ اور یرجع عن قضائہ ،ج ثامن ، ص ٣٠٢، نمبر ١٥٢٩٧)اس اثر سے معلوم ہوا کہ خلاف شریعت نہ ہو تو ماقبل قاضی کے فیصلے کو رد نہیں کرنا چاہئے۔
اور قرآن ، حدیث یا اجماع کے خلاف ہوتو اس کو رد کردے گا۔
وجہ  حدیث میں ہے۔ عن عائشة قالت قال رسول اللہ ۖ من احدث فی امرنا ھذا مالیس فیہ فھورد (ج) (بخاری شریف، باب اذا اصطلحوا علی صلح جور فالصلح مردود، ص ٣٧١، نمبر ٢٦٩٧ ابو داؤد شریف، باب فی لزوم السنة ، ج ٢، ص ٢٨٤، نمبر ٤٦٠٦) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ شریعت میں نہ ہو تو مردود ہے ۔ اسی باب میں ایک دیہاتی کے بیٹے کے زنا کا واقعہ ہے۔ لوگوں نے ان کے لئے رجم کا فیصلہ کیا تو آپۖ نے اس کو رد فرمایا اور فرمایا کہ تمہارے بیٹے پر سو کوڑے ہیںکیونکہ وہ محصن نہیں ہے۔(٣) حدیث میں ہے کہ حضرت خالد نے قیدیوں کے سلسلے میں قتل کا فیصلہ فرمایا جو شریعت کے خلاف تھا تو حضورۖ نے اس کو رد فرمایا اور اس سے براء ت ظاہر کی۔حدیث کا ٹکڑا یہ ہے۔ عن ابن عمر بعث النبی ۖ خالدا ... فذکر نا ذلک للنبی ۖ فقال اللھم انی ابراء الیک مما صنع خالد بن الولید مرتین (د) (بخاری شریف، باب اذا قضی الحاکم بجور او خلاف اہل العلم فھو رد ، ص ١٠٦٦، نمبر ٧١٨٩) اس حدیث سے بھی معلوم ہوا کہ خلاف شریعت فیصلہ ہوتو اس کو رد کیا جائے گا اور نافذ نہیں کیا جائے گا (٤) اثر میں اس کی صراحت ہے۔ عن الثوری قال اذا قضی القاضی بخلاف کتاب اللہ او سنة نبی اللہ او شیء مجتمع علیہ ،فان القاضی بعدہ یردہ ، فان کان شیئا برای الناس لم یردہ ویحمل ذلک ما تحمل (ہ) (مصنف عبد الرزاق ، باب ھل یرد قضاء القاضی او یرجع عن قضائہ ، ج ثامن ، ص ٣٠٢، نمبر ١٥٢٩٨) اس اثر 

حاشیہ  :  (الف)عبید اللہ بن محرز کہتے ہیں کہ بصرہ کے قاضی موسی بن انس کا خط لیکر میں آیا اور اس کے پاس بینہ قائم کیا کہ میرا فلاں کے پاس اتنا اتنا ہے۔اور وہ آدمی کوفہ میں ہے ۔اور اس خط کو لیکر قاسم بن عبد الرحمن کے پاس آیا تو انہوں نے اس کو جائز قرار دیا (ب) حضرت شریح کہا کرتے تھے کہ میں پہلے لوگوں کے فیصلے کو رد نہیں کروںگا(ج) آپۖ نے فرمایا میرے اس معاملے میں جس نے نئی بات پیدا کی وہ رد ہے(د)آپۖ نے حضرت خالد کو بھیجا ... پس حضورۖ کے سامنے خالد کے قتل کا تذکرہ کیا تو آپۖ نے فرمایا اے اللہ جو کچھ خالد نے کیا اس سے میں بری ہوں۔ یہ دو مرتبہ فرمایا(ہ) اگر قاضی کتاب اللہ کے خلاف فیصلہ کرے یا(باقی اگلے صفحہ پر) 

Flag Counter