Deobandi Books

شرح ثمیری شرح اردو قدوری جلد 4 - یونیکوڈ

201 - 485
]٢٩١٧[(٣٠) واذا وصل الی القاضی لم یقبلہ الا بحضرة الخصم ]٢٩١٨[(٣١) فاذا سلّمہ الشھود الیہ نظر الی ختمہ فاذا شھدوا انہ کتاب فلان القاضی سلّمہ الینا فی مجلس حکمہ وقضائہ وقرأہ علینا وختمہ فتحہ القاضی وقرأہ علی الخصم والزمہ مافیہ۔ 

سے بھی معلوم ہوا کہ گواہ کو علم ہو کہ خط میں کیا ہے تاکہ جھوٹ گواہی نہ دے سکے۔
اور خط پر مہر لگائے اس کی دلیل پہلے گزر چکی ہے۔عن انس بن مالک قال لما اراد النبی ۖ ان یکتب الی الروم قالوا انھم لایقرؤن کتابا الا مختوما فاتخذ النبی ۖ خاتما من فضة کانی انظر الی وبیضہ ونقشہ محمد رسول اللہ (الف) (بخاری شریف، باب الشھادة علی الخط المختوم الخ ،ص ٧١٦٢١٠٦٠) اس حدیث میں ہے کہ آپۖ نے مہر بنوائی تاکہ خط پر مہر لگائی جا سکے (٢) مہر لگانے سے خط میں کوئی کمی زیادتی نہیں کر سکتا اس لئے بھی مہر لگائے۔
]٢٩١٧[(٣٠)جب خط قاضی کے پاس پہنچے تو اس کو قبول نہ کرے مگر مدعی علیہ کے سامنے۔
تشریح  مکتوب الیہ قاضی کے سامنے خط پہنچنے کا مطلب یہ ہے کہ اس پر وہ فیصلہ کرے اور مدعی علیہ پر نافذ کرے۔ اور نافذ کرنا اس وقت ہوسکتا ہے جب مدعی علیہ حاضر ہو۔ اس لئے مدعی علیہ کی حاضری میں خط قبول کرے۔
وجہ  حدیث میں ہے کہ حضرت علی کو آپۖ نے فرمایا۔فاذا جلس بین یدیک الخصمان فلا تقضین حتی تسمع من الآخر کما سمعت من الاول فانہ احری ان تبین لک القضاء (ب) (ابوداؤد شریف، باب کیف القضائ، ص ١٤٨، نمبر ٣٥٨٢) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مدعی علیہ حاضر ہو تب اس کے سامنے فیصلہ کرے۔ 
]٢٩١٨[(٣١)جب گواہ خط قاضی کو دے تو وہ اس کی مہر دیکھے ۔پس اگر گواہوں نے گواہی دی کہ وہ فلاں قاضی کا خط ہے اور اپنی مجلس قضا میں ہمارے سپرد کیا ہے اور ہمارے سامنے پڑھا ہے تو قاضی اس کو کھولے اور اس کو مدعی علیہ پر پڑھے اور جو کچھ اس میں ہے اس کو مدعی علیہ پر لازم کرے۔
تشریح   جب گواہ مکتوب علیہ قاضی کو خط سپرد کرے تو قاضی پہلے اس کی مہر کو دیکھے کہ وہ صحیح ہے یا نہیں ۔کیونکہ مہر ٹوٹی ہوئی ہو تو اس کا مطلب یہ ہے کہ خط کسی نے کھولا ہے اورمضمون میں کمی زیادتی کی ہے۔ اس لئے پہلے مہر کو دیکھے کہ وہ سلامت ہے یا نہیں۔ پھر گواہ یہ گواہی دے کہ فلاں قاضی نے اپنی مجلس قضا میں یہ خط لکھا ہے اور ہمارے سپرد کیا ہے اور ہمارے سامنے اس کو پڑھا ہے پھر مہر لگائی ہے۔ اتنی باتوں کے بعد مکتوب الیہ قاضی خط کو کھولے اور مدعی علیہ کے سامنے پڑھے اور جو کچھ اس میں لکھا ہے اس کو مدعی علیہ پر لازم کرے۔
وجہ  یہ سب شرطیں اس لئے ہیں کہ اس بات کا اطمینان ہو جائے کہ یہ خط فلاں قاضی کا ہے۔ پھر اس خط کا مقصد یہ ہے کہ مدعی علیہ پر وہ بات 

حاشیہ  :   (الف) حضورۖ نے اہل روم کو خط لکھنے کا رادہ کیا تو لوگوں نے کہا وہ لوگ خط نہیں پڑھتے ہیں مگرمہر لگایا ہو۔ تو حضورۖ نے چاندی کی انگوٹھی بنائی ،ابھی بھی اس کی چمک میری نظر کے سامنے ہے اور اس کا نقش 'محمد رسول اللہ' تھا(ب) آپۖ نے حضرت علی سے فرمایا جب تمہارے سامنے دونوں فریق بیٹھیں تو نہ فیصلہ کرو یہاں تک کہ دوسرے سے سن لوجیسا کہ پہلے سے بات سنی ۔اس لئے کہ یہ زیادہ اچھا ہے کہ تیرے سامنے قضا واضح ہو جائے۔

Flag Counter