Deobandi Books

شرح ثمیری شرح اردو قدوری جلد 4 - یونیکوڈ

199 - 485
]٢٩١٤[ (٢٧) وان شھدوا بغیر حضرة خصمہ لم یحکم وکتب بالشھادة لیحکم بھا المکتوب الیہ]٢٩١٥[(٢٨) ولا یقبل الکتاب الا بشھادة رجلین او رجل وامرأتین۔ 

]٢٩١٤[(٢٧) اور اگر گواہی دی مدعی علیہ کی غیر موجودگی میں تو فیصلہ نہ کرے بلکہ گواہی لکھ لے تاکہ مکتوب علیہ قاضی اس کا فیصلہ کرے۔
تشریح   ایسی صورت ہے کہ گواہ حضرات ایک قاضی کے خطے میں ہیں اور مدعی علیہ دوسرے قاضی کے خطے میں ہے۔ اور دونوں کو جمع کرنا مشکل ہے ایسی صورت میں جس قاضی کے سامنے گواہ پیش ہوئے وہ قاضی گواہی لکھ لے۔لیکن فیصلہ نہ کرے کیونکہ مدعی علیہ غائب ہوتو فیصلہ کرنا جائز نہیں ہے۔ اور یہ گواہی مکتوب الیہ قاضی کو بھیج دے تاکہ وہ فیصلہ کرے اور مدعی علیہ پر نافذ کرے۔
وجہ  غائب مدعی علیہ پر فیصلہ کرنا جائز نہیں ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ ہوسکتا ہے کہ مدعی علیہ کوئی ایسی بات کہے جس سے اس کے خلاف فیصلہ نہ ہوسکتا ہو۔ اس لئے مدعی علیہ یا اس کا وکیل حاضر ہو تب فیصلہ کرے(٢) حدیث میں ہے کہ حضرت علی کو فرمایا کہ مدعی علیہ کی بات سن لو پھر فیصلہ کیا کرو۔ عن علی قال بعثنی رسول اللہ ۖ الی الیمن قاضیا ... فقال ان اللہ سیھدی قلبک ویثبت لسانک فاذا جلس بین یدیک الخصمان فلا تقضین حتی تسمع من الآخر کما سمعت من الاول فانہ احری ان یتبین لک القضاء (الف) (ابوداؤد شریف، باب کیف القضائ، ص ١٤٨، نمبر ٣٥٨٢ ترمذی شریف، باب ماجاء فی القاضی لا یقضی بین الخصمین حتی یسمع کلاھما ، ص ٢٤٨، نمبر ١٣٣١) اس حدیث میں ہے کہ دوسرے کی بات سنو تب فیصلہ کرو اور یہ اسی وقت ہو سکتا ہے کہ مدعی علیہ یا اس کا وکیل حاضر ہو (٣) اثر میں ہے۔ قال سمعت شریحا یقول لا یقضی علی غائب (ب) (مصنف عبد الرزاق ، با لایقضی علی غائب، ج ثامن ، ص ٣٠٤، نمبر ١٥٣٠٦) اس اثر سے معلوم ہوا کہ غائب پر فیصلہ نہ کرے۔ اس لئے صرف شہادت لکھ کر دوسرے قاضی کو بھیج دے تاکہ وہ فیصلہ کرے۔
فائدہ   امام بخاری فرماتے ہیں کہ مدعی علیہ کو حاضر کرنا مشکل ہو تو غائب مدعی علیہ کے خلاف بھی فیصلہ کیا جا سکتا ہے۔
وجہ  حدیث میں اس کا ثبوت ہے۔عن عائشة ان ھندا قالت للنبی ۖان ابا سفیان رجل شحیح واحتاج ان اخذ من مالہ،قال ۖ خذی ما یکفیک وولدک بالمعروف(ج) (بخاری شریف، باب القضاء علی الغائب ، ص ١٠٦٤، نمبر ٧١٨٠) اس حدیث میں حضرت سفیان حاضر نہیں تھے اس کے باوجود حضورۖ نے اس کے مال سے مناسب نفقہ لینے کا فیصلہ فرمایا۔جس سے معلوم ہوا کہ قضا علی الغائب جائز ہے۔
]٢٩١٥[(٢٨)اور نہ قبول کرے خط مگر دو مرد یا ایک مرد اور دو عورتوں کی گواہی سے۔
 
حاشیہ  :  (الف) حضرت علی فرماتے ہیں کہ مجھے حضورۖ نے یمن کی طرف قاضی بناکر بھیجا ... اللہ تیرے دل کو ہدایت دیںگے اور تمہاری زبان کو ثابت رکھیںگے جب تمہارے سامنے دونوں خصم بیٹھیں تو جب تک دوسرے فریق سے بات سن نہ لو فیصلہ نہ کرنا۔اس لئے کہ یہ صور ت زیادہ مناسب ہے کہ تمہارے سامنے قضا واضح ہو جائے (ب) حضرت شریح فرماتے تھے غائب پر فیصلہ نہ کریں(ج) حضرت ہند نے حضورۖ سے کہا ابوسفیان بخیل آدمی ہیں۔اور مجھے ان کا مال لینے کی ضرورت پڑ جاتی ہے تو کیا میں لوں ؟ آپۖ نے فرمایا تم کو اور تمہاری اولاد کو مناسب انداز میں جتنا کافی ہو اتنالے لو۔

Flag Counter