Deobandi Books

شرح ثمیری شرح اردو قدوری جلد 4 - یونیکوڈ

198 - 485
]٢٩١٣[ (٢٦)فان شھدوا علی خصم حاضر حکم بالشھادة وکتب بحکمہ۔

تشریح  حدود اور قصاص کے علاوہ جتنے حقوق ہیں ان میں ایک قاضی دوسرے قاضی کی طرف خط لکھے اور مکتوب الیہ قاضی کے سامنے گواہی دے کہ واقعی یہ خط فلاں قاضی کا ہے تو وہ خط مقبول ہے۔اور جس قاضی کی طرف یہ خط لکھا ہے اس کو اختیار ہے کہ اس خط کے مطابق عمل کرے۔
وجہ  کتاب القاضی الی القاضی کی دلیل کے لئے یہ حدیث ہے۔ ان عبد اللہ بن سہل ومحیصة خرجا الی خیبر ... فکتب رسول اللہ ۖ الیھم بہ فکتب ماقتلناہ (الف)(بخاری شریف، باب کتاب الحاکم الی عمالہ والقاضی الی امناء ہ ،ص ١٠٦٧، نمبر ٧١٩٢) اس حدیث میں حضورۖ نے حضرت عبد اللہ بن سہل کے قتل پر یہود کو خط لکھا ہے جس سے معلوم ہوا کہ حاکم اپنے عمال کو خط لکھ سکتا ہے (٢) اثر میں ہے۔ وقد کتب عمر الی عاملہ فی الحدود وقال ابراھیم کتاب القاضی الی القاضی جائز اذا عرف الکتاب والخاتم وکان الشعبی یجیز الکتاب المختوم بما فیہ من القاضی(ب) (بخاری شریف، باب الشہادة علی الخط المختوم وما یجوز من ذلک وما یضیق علیہ،وکتاب الحاکم الی عمالہ والقاضی الی القاضی، ص ١٠٦٠، نمبر ٧١٦٢) اس اثر سے معلوم ہوا کہ اگر مکتوب الیہ قاضی کاتب قاضی کا خط اور مہر پہچانتا ہو تو وہ جائز ہے اور اس پر عمل کرنا جائز ہے۔
مکتوب الیہ قاضی جانتا ہو کہ یہ کاتب قاضی کا خط ہے یا کاتب قاضی کی مہر ہے یا کاتب قاضی کے بارے میں مکتوب الیہ قاضی کے سامنے گواہی دے کہ یہ فلاں کا خط ہے تب اس کے لئے عمل کرنا جائز ہے۔ اس کی دلیل اوپر کا اثر ہے۔ قال ابراہیم کتاب القاضی الی القاضی جائز اذا عرف الکتاب والخاتم (ج) (٢) حدیث میں ہے ۔ عن انس بن مالک قال لما اراد النبی ۖ ان یکتب الی الروم قالوا انھم لا یقرؤن کتابا الا مختوما فاتخذ النبی ۖ خاتما من فضة کانی انظر الی وبیضہ ونقشہ محمد رسول اللہ (د) (بخاری شریف، باب الشھادة علی الخط المختوم الخ، ص ١٠٦٠، نمبر ٧١٦٢) اس حدیث میں ہے کہ مہر بنائے کیونکہ مہر سے مکتوب الیہ قاضی جان سکتا ہے کہ یہ فلاں قاضی کا خط ہے (٣) اگر کسی قرینے سے یقین نہ ہو کہ یہ فلاں قاضی کا خط ہے تو مکتوب الیہ قاضی کیسے اس پر عمل کرے گا۔
]٢٩١٣[(٢٦)پس اگر گواہی دی مدعی علیہ کے سامنے تو گواہی پر حکم لگادے اور اپنا فیصلہ بھی لکھے۔
تشریح   مدعی علیہ مجلس قضا میں حاضر ہے ایسی صورت میں گواہی دی گئی تو گواہی پر حکم لگائے اور قاضی اپنا فیصلہ بھی لکھے گا۔
وجہ  مدعی علیہ غائب ہوتو فیصلہ نہیں کر سکتا۔ اس لئے اگر مدعی علیہ حاضر ہو تو فیصلہ کرے گا۔ اس کے بعد کسی اور ضرورت مثلا سزا دینے کے لئے دوسرے قاضی کو بھجنا پڑے تو بھیج دے۔
 
حاشیہ  :  (الف) حضورۖ نے یہودیوں کو خط لکھا  پس انہوں نے جواب دیا کہ ہم نے ان کو قتل نہیں کیا (ب)حضرت عمر نے اپنے عامل کو حدود کے بارے میں لکھا ۔فرمایا کہ حضرت ابراہیم  نے فرمایا کہ کتاب القاضی الی القاضی جائز ہے اگر خط کی تحریر اور مہر پہچانتا ہو۔ حضرت شعبی ایسے خط کو جس پر قاضی کی جانب سے مہر لگی ہوئی ہو جائز قرار دیتے تھے(ج)حضرت ابراہیم نخعی جائزقرار دیتے تھے کتاب القاضی الی القاضی کو اگر تحریر اور مہر پہچانتا ہو (د) جب حضورۖ نے اہل روم کو خط لکھنا چاہا تو لوگوں نے کہا کہ وہ مہر کے بغیر خط نہیں پڑھتے ،تو آپۖ نے چاندی کی انگوٹھی بنائی اس کی چمک ابھی بھی میری آنکھوں کے سامنے ہے اور اس کا نقش 'محمد رسول اللہ'تھا۔

Flag Counter