Deobandi Books

شرح ثمیری شرح اردو قدوری جلد 4 - یونیکوڈ

195 - 485
]٢٩٠٦[(١٩) ولا یحبسہ فیما سوی ذلک اذا قال انی فقیر الا ان یُثبت غریمہ ان لہ مال]٢٩٠٧[ (٢٠) ویحبسہ شھرین او ثلثة ثم یسأل عنہ فان لم یظھر لہ مال خلّٰی سبیلہ 

نوٹ  مہر مؤخر جو بعد میں دینے کا وعدہ ہو اس میں خود عورت نے بعد میں لینے کا وعدہ کیا ہے اس لئے اس کی ادائیگی کے ٹال مٹول میں حبس نہیں کیا جائے گا۔
کفالہ کی شکل یہ ہے کہ کوئی آدمی کسی کے قرض دینے کا کفیل بن جائے اور مقروض قرض ادا نہ کرے تو کفیل پر قرض ادا کرنا لازم ہو۔اب کفیل نے کفیل بننے کا اقدام کیا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کے پاس مال ہے تب ہی تو اقدام کیا۔ اس لئے حق ثابت ہونے کے بعد اس کو حبس کیا جا سکتا ہے (٢) کفیل ابھی ادا کرے گا بعد میں جس کا کفیل بنا تھا اس سے وصول کرے گایہ بھی دلیل ہے کہ اس کے پاس مال ہوگا۔ اس لئے اس کو حبس کیا جا سکتا ہے۔ یہ عقد کے ذریعہ اپنے اوپر حق لازم کرنے کی مثال ہے۔
]٢٩٠٦[(١٩)اور اس کو اس کے علاوہ میں قید نہ کرے اگر وہ کہے کہ میں فقیر ہوں،مگر یہ کہ ثابت کردے قرض خواہ کہ اس کے پاس مال ہے۔
تشریح  ایسے حقوق جس میں مدعی علیہ کے پاس اس کا بدل ہاتھ میں نہ آیا ہو جیسے جنایت کی دیت،مثلا کسی کا ہاتھ کاٹ دیا اس کے بدلے میں ایک ہزار درہم دینا ہے تو اس صورت میں مجرم کے ہاتھ میں کچھ نہیں آیا صرف جرم کی وجہ سے ایک ہزار درہم دینا پڑ رہا ہے۔ ایسی صورت میں اگر مدعی گواہ کے ذریعہ ثابت کردے کہ اس کے پاس دیت ادا کرنے کے لئے مال ہے تب تو حبس کیا جائے گا۔ اور یہ ثابت نہ کر سکے تو حبس نہیں کیا جائے گا۔
وجہ  چونکہ مدعی علیہ کے ہاتھ میں بدلے میں مال نہیں آیا ہے اس لئے اس کے مالدار ہونے کی دلیل نہیں ہے اس لئے فوری طور پر قید بھی نہیں کیا جائے گا (٢) اوپر حضرت علی کے اثر میں تھا اور حدیث میں بھی اشارہ تھا کہ دین کے بدلے میں حبس کرتے تھے اس کے علاوہ میں مالدار ظاہر ہوئے بغیر حبس نہیں کرتے تھے۔وقال جابر کان علی یحبس فی الدین (الف) (مصنف عبد الرزاق، باب الحبس فی الدین ، ج ثامن ، ص ٣٠٦، نمبر ١٥٣١٢) اس اثر سے معلوم ہوا کہ دین میں حبس کرے۔اور اوپر کی حدیث،لی الواجد یحل عرضہ وعقوبتہ (ب) (ابو داؤد شریف، باب فی الدین ھل یحبس بہ، ج ٢ ، ص ١٥٥، نمبر ٣٦٢٨) سے معلوم ہوا کہ جو مال پائے اس کی سزا حلال ہے یعنی قید کیا جاسکتا ہے ۔اور یہ چونکہ ابھی مال نہیں پا رہا ہے اس لئے فوری طور پر اس کو قید کرنا اچھا نہیں ہے جب تک گواہ کے ذریعہ اس کی مالداری ثابت نہ ہو جائے۔
]٢٩٠٧[(٢٠)اس کو قید کر سکتے ہیں دو مہینے یا تین مہینے تک پھر اس کے مال کے بارے میں تحقیق کرے، پس اگر اس کا مال ظاہر نہ ہو تو اس کو رہا کردے۔
تشریح   قید کی مدت حالات اور آدمی کے حسب حال ہے۔ البتہ اندازہ نہ ہو تو دو تین ماہ حبس کرے۔ اس کے درمیان میں اس کے مال کی تحقیق 

حاشیہ  :  (الف) حضرت علی قرض میں قید کرتے تھے (ب) جس کے پاس مال ہے اس کے ٹال مٹول کرنے والے کی عزت اور سزا بھی حلال ہے۔

Flag Counter