Deobandi Books

شرح ثمیری شرح اردو قدوری جلد 4 - یونیکوڈ

187 - 485
]٢٨٩١[(٤) ولا ینبغی ان یطلب الولایة ولایسألھا]٢٨٩٢[(٥)ومن قُلِّد فی القضاء 

حدیث میں ہے کہ قاضی بنایا گیا تو سمجھو کہ بغیر چھری کے ذبح کیا گیا۔ جس سے معلوم ہو کہ عاجز ہوتو قضاء لینا اچھا نہیں ہے (٢) دوسری حدیث میں اس کی تصریح ہے۔ عن ابی ذر ان رسول اللہ ۖ قال یا ابا ذر ! انی اراک ضعیفا وانی احب لک ما احب لنفسی لا تامرن علی اثنین ولا تولین مال یتیم (الف) (مسلم شریف، باب کراہة الامارة بغیر ضرورة ،ج ٢ ،ص ١٢١، نمبر ١٨٢٦ ابو داؤد شریف، باب ماجاء فی الدخول فی الوصایا ،ص ٤٠ ، نمبر ٢٨٦٨) اس حدیث میں ہے کہ آدمی قضاء سے عاجز ہو تو قضاء نہ لے (٣) اوپر کی آیت میں بھی ہے کہ اگر خواہش نفس کی اتباع کی تو گمراہ ہو جائے گا۔ اس لئے اگر عاجزی کا خوف ہوتو قضاء نہ لے تاکہ گمراہ نہ ہو۔
]٢٨٩١[(٤)نہ ولایت کی درخواست کرنا مناسب ہے اور نہ اس کا مانگنا۔
تشریح  اگر قضاء چلانے کے لئے دوسرا آدمی موجود ہے اور اپنے نہ ہونے سے امت کی ہلاکت کا خطرہ نہیں ہے تو اس کی خواہش رکھنا بھی مناسب نہیں اور اس کامانگنا بھی مناسب نہیں۔ 
وجہ  کسی آدمی کا غلط فیصلہ ہوجائے تو اس کا گناہ قاضی کے سرپر ہے۔ اس لئے بلا وجہ اس مصیبت میں پڑنا اچھا نہیں ہے(٢) حدیث میں ہے۔ حدثنی عبد الرحمن بن سمرة قال: قال لی رسول اللہ ۖ یا عبد الرحمن بن سمرة لا تسأل الامارة فان اعطیتھا عن مسألة وکلت الیھا وان اعطیتھا عن غیر مسألة اعنت علیھا (ب) (بخاری شریف، باب من سأل الامارة وکل الیھا ، ص ١٠٥٨، نمبر ٧١٤٧ مسلم شریف، باب النھی عن طلب الامارة والحرص علیھا ، ج ٢، ص ١٢٠، نمبر ٤٧١٥١٦٥٢) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ امارت اور قضا نہیں مانگنا چاہئے (٣) دوسری حدیث میں ہے۔ عن ابی موسی قال : دخلت علی النبی ۖ انا ورجلان من بنی عمی،فقال احد الرجلین: یا رسول اللہ ! امرنا علی بعض ما ولاک اللہ عز وجل، وقال الآخر مثل ذلک۔فقال: انا واللہ لا نولی علی ھذا العمل احدا سألہ ولا احدا حرص علیہ (ج) (مسلم شریف، باب النھی عن طلب الامارة والحرص علیھا ،ص ١٢٠، نمبر ٤٧١٧١٧٣٣ بخاری شریف، باب ما یکرہ من الحرصی علی الامارة ،ص ١٠٥٨، نمبر ٧١٤٩) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جو قضاء مانگے یا اس کی حرص کرے اس کو قضاء نہ دی جائے۔
]٢٨٩٢[(٥)جس کو قاضی بنایا گیا اس کو قاضی کا وہ رجسٹر سپرد کیا جائے جو اس سے پہلے قاضی کا تھا۔
تشریح   جس کو قاضی بنایا گیا ہو اس کو وہ رجسٹر دیا جائے جو پہلے قاضی کے پاس تھا۔
 
حاشیہ  :  (الف) آپۖ نے فرمایا اے ابوذر ! میں تم کو کمزور دیکھ رہا ہوں اور میں تمہارے لئے وہی پسند کرتا ہوں جو اپنے لئے پسند کرتا ہوں۔ دو آدمیوں پر بھی امیر نہ بنو اور یتیم کے مال کا والی نہ بنو(ب) مجھے حضورۖ نے فرمایا اے عبد الرحمن بن سمرة ! امارت نہ مانگو۔ پس اگر مانگنے سے دی گئی تو تم اس کی طرف سپرد کر دیئے جاؤگے ۔اور اگر بغیر مانگے دیا گیا تو اس پر تمہاری مدد کی جائے گی (ج) حضرت ابو موسی فرماتے ہیں کہ میں اور ایک آدمی حضورۖ کے پاس گئے۔ پس دو میں سے ایک نے کہا یا رسول اللہ ! آپۖ کو اللہ نے جس چیز کا والی بنایا ہے اس میں سے بعض پر مجھے امیر بنائے۔ اور دوسرے نے بھی ایسا ہی کہا۔ تو آپۖ نے فرمایا خدا کی قسم اس کو امیر نہیں بناتا جو اس کو مانگتا ہے۔ اور نہ ایسے کو جو اس کی حرص کرتا ہے۔

Flag Counter