Deobandi Books

شرح ثمیری شرح اردو قدوری جلد 4 - یونیکوڈ

185 - 485
اھل الاجتھاد۔
 
بما کان قبلہ، مستشیرا لاھل العلم ملغیا للرثغ یعنی الطمع، حلیما عن الخصم، محتملا للائمة (الف)( مصنف عبد الرزاق، باب کیف ینبغی للقاضی ان یکون، ج ثامن ، ص ٢٩٨، نمبر ١٥٢٨٦) اس اثر میں ہے کہ پانچ باتیں قاضی میں ہوں (١) شریعتوں کو جاننے والا ہو(٢)اہل علم سے مشورہ کرنے والا ہو(٣) لالچ سے دور ہو(٤) خصم سے بردباری کا معاملہ کرنے والا ہو(٥) دوسرے کی ملامت کو برداشت کرنے والا ہو۔ یہاں الائمة لوم کی جمع ہے جس کے معنی ملامت ہے۔
اور قاضی اہل اجتہاد ہو اس کی دلیل اوپر کی حدیث معاذ ہے۔ جس میں ہے کہ میں اپنی رائے سے اجتہاد کروں کا ۔جس کا مطلب یہ ہے کہ قاضی اہل اجتہاد ہوگا تب ہی تو اجتہاد کر سکے گا۔ حدیث کا ٹکڑا یہ ہے۔عن اناس من اھل حمص من اصحاب معاذ بن جبل ان رسول اللہ ۖ لما اراد ان یبعث معاذ الی الیمن ... فان لم تجد فی سنة رسول اللہ ولا فی کتاب اللہ؟ قال اجتھد برایی ولا آلو(ب)(ابو داؤد شریف، باب اجتھاد الرای فی القضاء ،ص ١٤٩، نمبر ٣٥٩٢ ترمذی شریف، باب ماجاء فی القاضی کیف یقضی ،ص ٢٤٧، نمبر ١٣٢٧) اس حدیث میں ہے کہ اپنی رائے سے اجتہاد کروں گا اور یہ اسی وقت ہوگا جب قاضی صاحب اجتہاد ہو(٢) دوسری حدیث میں ہے ۔عن عمرو بن العاص انہ سمع رسول اللہ ۖ قال اذا حکم الحاکم فاجتھدثم اصاب فلہ اجران واذا حکم فاجتھد ثم اخطأفلہ اجر (ج) (مسلم شریف، باب بیان اجر الحاکم اذا اجتھد فاصاب او اخطأ ، ص ٧٦ ، نمبر ١٧١٦) اس حدیث میں ہے کہ اجتہاد کرے اور صحیح فیصلہ کرے تو دو اجر ہیں اور غلطی کرے تو ایک اجر ہے۔ اور اجتہاد اسی وقت کرسکتا ہے جب قاضی میں صفت اجتہاد ہو۔
فائدہ   علماء فرماتے ہیں کہ صفت اجتہاد ہو تو بہتر ہے ورنہ غیر مجتہد کو بھی قاضی بنا سکتا ہے۔
وجہ  کیونکہ دوسروں کے لئے فیصلے کو یا فتوی کو نافذ کرے اور خود اجتہاد نہ کرے (٢) حدیث میں ہے کہ حضرت علی نو عمر تھے اور ابھی ان میں صفت اجتہاد نہیں آئی تھی پھر بھی حضورۖ نے ان کو قاضی بنا کر یمن بھیجا۔عن علی قال بعثنی رسول اللہ ۖ الی الیمن قاضیا فقلت یا رسول اللہ ۖ ترسلنی وانا حدیث السن ولا علم لی بالقضاء فقال ان اللہ سیھدی قلبک الخ(د) (ابو داؤد شریف، باب کیف القاضاء ، ص ١٤٨، نمبر ٣٥٨٢) اس حدیث میں حضرت علی نو عمر تھے اور صفت اجتہاد نہیں تھی پھر بھی قاضی بنائے گئے۔جس سے معلوم ہوا کہ بغیر صفت اجتہاد کے بھی قاضی بنائے جا سکتے ہیں۔
 
حاشیہ  :  (الف) عمر بن عبد العزیز نے فرمایا کہ مناسب نہیں ہے کہ قاضی بنے یہاں تک کہ اس میں پانچ صفتیں ہوں۔ کسی کا نہ ہونا خلل ہے۔ ایک تو ماقبل کی باتوں کو جاننے والا ہو، دوسری اہل علم سے مشورہ کرنے والا ہو۔ ،تیسری یہ کہ لالچ نہ ہو، چوتھی یہ مخالف کے ساتھ برد بار ہو،اور پانچویں صفت یہ کہ ملامت کو برداشت کرنے والا ہو (ب)جب حضورۖ نے حضرت معاذ کو یمن کی طرف بھیجنے کا ارادہ کیا تو فرمایا اگر سنت رسول اور کتاب اللہ میں نہ پاؤ تو کیا کروگے ؟ فرمایا اپنی رائے سے اجتہاد کروں گا اور کوتاہی نہیں کروں گا (ج) آپۖ نے فرمایا جب حاکم فیصلہ کرتے وقت اجتہاد کرے پھر صحیح پر پہنچ جائے تو اس کے لئے دو اجر ہیں۔ اور اگر فیصلہ کرتے وقت اجتہاد کرے اور غلطی کر جائے تو اس کے لئے ایک اجر ہے(د) حضرت علی فرماتے ہیں کہ حضورۖ نے مجھے یمن کا قاضی بنا کر بھیجا ۔میں نے کہا یارسول اللہۖ ! آپۖ مجھے بھیجتے ہیں  حالانکہ میں نو عمر ہوں۔ اور فیصلہ کرنا بھی نہیں جانتا ہوں۔ آپۖ نے فرمایا اللہ تمارے دل کی رہنمائی کرے گا۔

Flag Counter