سامان بنائیے …واقعی فہیم اور سمجھ دار وہی شخص ہے …جو ''وعظ بغیر ہ''دوسرے کو دیکھ کر نصیحت حاصل کرے۔
حضرت لقمان حکیم رحمہ اللہ تعالیٰ سے کسی نے دریافت کیا ؟حکمت از کی آمو ختی ؟ حکمت اور دانشمندی کس سے سیکھی؟فرمایا''ازبے ادبان'' بے ادبوں سے ''چرا''کس طرح ؟ فرمایا ''انکا کرنا مجھے اچھا نہیں لگتا تھا''لہٰذا وہ جس طرح کرتے تھے میں ویسے نہ کرتا تھا…اس طرح باادب اور حکیم بن گیا۔
دوستو!بدنظری …دوسروں کی ماں،بہن ،بہو اور بیٹیوں کو دیکھنا…سب جانتے ہیں … بے غیرتی اور بے حیائی کا کام ہے… کوئی اس کو کمال ،عزت اور قابل ِ فخر کا م نہیں سمجھتا … لہٰذا ایسے واقعات سے ہمیں عبرت حاصل کرنی چاہئے اور بچنے کا اہتمام کرنا چاہئے۔
کنز العمال میں حدیث قدسی ہے …اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:
ان النظر سھم من سھام ابلیس مسموم من ترکھا مخافتی ابد لتہ ایمانا یجدحلاوتہ فی قلبہ۔(کنز العمال،ج٥،ص٣٢٨)
نظر ابلیس کے تیروں میں سے ایک تیر ہے ،زہر میں بجھا ہوا جس نے میرے خوف سے اس کو ترک کیا اس کے بدلے میں اس کو ایسا ایمان دوں گا جس کی مٹھاس کو وہ اپنے دل میں پالے گا۔
یعنی وہ واجد ہوگا اور حلاوت ِایمانی اس کے دل میں موجود ہوگی… یہ تصورات ، تخیلات اور وہمیات کی دنیا نہیں ہے …وحی الٰہی ہے…یہ نہیں فرمایا … تم تصور کر لو کہ ایمان کی مٹھاس دل میں آگئی … بلکہ یجد فرمایا کہ تم اپنے دل میں اس مٹھا س کو پائو گے۔
دوستو! …عمل کر کے دیکھئے …دل ایسی مٹھاس پائیگا …جس کے آگے ہفت اقلیم کی سلطنت نگاہوں سے گر جائے گی… علامہ ابو القاسم قشیری رحمة اللہ تعالیٰ علیہ رسالہ قشیریہ میںتحریر فرماتے ہیں… نظر کی حفاظت کا حکم دے کر اللہ تعالیٰ نے آنکھوں کی مٹھاس لے لی … لیکن اس کے بدلے میں دل کی غیر فانی مٹھاس عطا فرمادی۔
(مرقاة ج ١ ،ص ٧٤)پر ہے: وقد ورد ان حلاوة الایمان اذا دخلت قلبا لا تخرج منہ ابدا …حلاوتِ ایمان جس قلب میںداخل ہوتی ہے پھر کبھی نہیں نکلتی۔
ملاعلی قاری رحمة اللہ علیہ اس کی شرح میں فرماتے ہیں …ففیہ اشارة الیٰ بشارة حسن