شریعت کے حکم ہے …بلکہ ان سے پردہ کا اہتمام زیادہ ضروری ہے… کیونکہ ان سے واسطہ زیادہ پڑتا ہے…لہٰذا خاندان کے نامحروموں سے زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے۔
عورتوںکے لیے مندرجہ ذیل رشتے دار نا محرم ہیں اس لئے ان سے پردہ کرنا ضروری ہے… خالو،پھوپھا،چچا زاد بھائی،تایا زاد بھائی ،پھوپھی زاد بھائی،خالہ زاد بھائی ،ماموں زاد بھائی ،بہنوئی ،شوہر کے تمام مرد رشتہ دارعلاوہ سسر یہ سب نامحرم ہیں…عورتوں کو چاہئے کہ دیور اور جیٹھ سے پردہ کا اہتمام کریں … ایک عورت نے حضور ا سے پوچھا کہ کیا ہم دیور (یعنی شوہر کے بھائی ) سے پردہ کریں؟ … حضور ا نے فرمایا … دیور تو موت ہے موت…( یعنی جس طرح موت زندگی کو ختم کر دیتی ہے اسی طرح دیور سے پردہ نہ کرنا دین کو تباہ کر دیگا اس لیے دیور سے اس طرح ڈرناچاہیے جیسے موت سے)…چونکہ اس میں فتنہ زیادہ ہے اس لیے حضور ا نے اس کی خاص تاکید اور تنبیہ فرمائی …اسی کو اکبر الہٰ آبادی نے کہا ہے
آج کل پردہ دری کا یہ نتیجہ نکلا
جس کو سمجھے تھے کہ بیٹا ہے بھتیجہ نکلا
شرعی پردہ کا مطلب یہ نہیں ہے … کہ کمرے میں بند ہو کر بیٹھ جائیں …بلکہ اگر گھر چھوٹا ہے تو اچھی طرح گھونگھٹ نکالیںتاکہ چہرہ بالکل نظر نہ آئے … چادر سے بدن چھپا کر گھر کا کام کاج کرتی رہیں … لیکن اگر گھر میں کوئی نہیں ہے … تونامحرم کے ساتھ تنہائی جائز نہیں … اور بے ضرورت نامحرموں سے گفتگو نہ کریں… اگر کوئی ضروری بات کرنی ہو مثلاً سودا سلف منگانا ہو… تو پردہ سے آواز ذرا بھاری کر کے کہہ دیں… اور ایک دسترخوان پر نامحرموں کے ساتھ کھانا نہ کھائیں…یا تو اپنے شوہروں کے ساتھ کھائیں …یا عورتیں ایک ساتھ کھائیں …مرد ایک ساتھ کھائیں…اسی طرح لوگ چھوٹے بچوں کو گھر میں نوکر رکھ لیتے ہیں …لیکن جب وہ جوان ہو جاتے ہیں تو بیگم صاحبہ کہتی ہیں… اس سے کیا پردہ… اس کو تو میں نے ہگایا ،مُتایا ہے …خوب سمجھ لیں کہ اس سے پردہ واجب ہے …بچپن کے احکام اور ہیں ،جوانی کے احکام اور ہیں …ہگانے ،مُتانے سے کیا ہوتا ہے…اپنے ہی بچہ کو بچپن میں ہگاتی مُتاتی ہو …نہلاتی ہو… تو جب اپنی اولا د کے لئے احکام بدل گئے …تو نوکر تو نا محرم ہے۔ اس سے پردہ نہ کرنا سخت گناہ ہے …اسی طرح آج کل ایک بیماری اور پھیل گئی ہے … میرا منہ بولا بھائی ہے…یہ میرا مُنہ بولا بیٹا ہے…مُنہ بولنے سے نہ کوئی بھائی ہو جاتا ہے نہ بیٹا ہو جاتا ہے…ان سے پردہ ضروری ہے… جن گھرانوں میں شرعی پردہ معیوب