توبہ قبول ہونے کی پہلی شرط
۱) گناہ سے الگ ہوجائے۔ گناہ کرتے ہوئے کہنا کہ توبہ توبہ توبہ توبہ، تو ایسی توبہ قبول نہیں، کیوں کہ حالتِ گناہ میں نزولِ غضب ہورہا ہے اور توبہ نزولِ رحمت کا ذریعہ ہے اور غضب کےساتھ رحمت جمع نہیں ہوسکتی،کیوں کہ رحمت اور غضب میں تضاد ہے اور اجتماعِ ضدین محال ہے۔ بعض لوگ بڑے بڑے وظیفے پڑھتے ہیں لیکن گناہ نہیں چھوڑتے۔ میرے مرشد شاہ ابرار الحق صاحب دامت برکاتہم فرماتے ہیں کہ وظیفوں سے رحمت کا ٹرک آگیا اور گناہوں سے غضب کا ٹرک آگیا، اب دونوں ایک دوسرے کو سائیڈ نہیں دیتے، لہٰذا سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی چھوڑدو۔ حالتِ نافرمانی میں زیادہ دیر تک رہنا اچھا نہیں ہے۔ اللہ کے غضب میں رہنا اچھا نہیں ہے اور عقل کے خلاف بھی ہے، جس سے آدمی کوئی چیز لینا چاہتا ہے پہلے اس کو خوش کرتا ہے،پھر خوش کرکے اس کی عطا ومہربانی وبخشش لیتا ہے۔ پہلے اپنی بخشش مانگ لی، مغفرت مانگ لی، خطاؤں کی معافی مانگ لی۔ جس مالک سے سب اُمیدیں لگائے بیٹھے ہیں اس کو ناراض کرنا کہاں کی عقل مندی ہے،جبکہ مرکے اسی کے پاس جانا ہے اور یہ خبر نہیں کہ کب جانا ہے؎
نہ جانے بلا لے پیا کس گھڑی
تو رہ جائے تکتی کھڑی کی کھڑی
اگر اچانک موت آگئی تو کس حالت میں جاؤگے؟ اور اگر موت نہ بھی آئے تو خود یہی کیا کم موت ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی اور مولیٰ کی ناراضگی میں جی رہے ہو۔ اللہ تعالیٰ کی ناراضگی میں جینا کوئی جینا ہے!یہ زندگی نہیں ہے شرمندگی ہے۔ زندگی تو نام ہے بندگی کا؎
زندگی پُر بہار ہوتی ہے
جب خدا پر نثار ہوتی ہے
یہ میرا ہی شعر ہے جو آپ سے خطاب کررہا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ گناہ سے تو کسی کو مفر نہیں ہے،کیوں کہ سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ تم سب کے سب خطاکار ہو کُلُّ بَنِیْ اٰدَمَ خَطَّاءٌہر انسان خطاکار ہے، سوائے انبیاء علیہم السلام کے کہ وہ مستثنیٰ ہیں،