یَا رَجَاءَ الْمُؤْمِنِیْنَ لَاتَقْطَعْ رَجَائَنَا، یَاغِیَاثَ الْمُسْتَغِیْثِیْنَ
یَامُعِیْنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اَعِنَّا، یَا مُحِبَّ التَّوَّابِیْنَ تُبْ عَلَیْنَا
اے ایمان والوں کی اُمید! ہماری اُمید کو منقطع نہ کیجیے،اے فریاد خواہوں کے فریاد رس! ہماری فریاد سن لے،اے ایمان والوں کی مدد کرنے والے! ہماری مدد فرما،اے توبہ کرنے والوں سے محبت کرنے والے! ہماری توبہ کو قبول فرما۔
تفسیر روح المعانی میں یہ مضمون موجود ہے۔8؎ دلیل پیش کردیتا ہوں تاکہ کسی کو شبہ نہ ہو کہ پتا نہیں کہاں سے پیش کررہے ہیں؟ تو یہ چار شرطیں ہیں۔ ان چار شرطوں کے بعد توبہ قبول ہے اور اِنَّ اللہَ یُحِبُّ التَّوَّابِیۡنَ کی محبوبیت کا نزول ہے یعنی بندہ جب یہ چاروں شرطیں پوری کرے گا اسی وقت محبوب ہوجائے گا۔
وسوسۂ شکستِ توبہ قبولِ توبہ میں مانع نہیں
یاد رکھو کہ ان شرائط کے بعد وسوسۂ شکستِ توبہ مانع قبولِ توبہ نہیں ہے، ذریعۂ قبولِ توبہ ہے کہ میرا بندہ توبہ تو کررہا ہے، مگر اپنے اوپر بھروسہ نہیں کررہا ہے، شکستِ توبہ کا اندیشہ کررہا ہے، مجھ سے اِیَّاکَ نَعۡبُدُ کا وعدہ تو کررہا ہے، لیکن وَ اِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ بھی لگائے ہوئے ہے کہ میری عبادت آپ کی استعانت کی محتاج ہے اور توبہ بھی عبادت ہے، تو میری توبہ بھی آپ کی استعانت کی محتاج ہے۔ آپ ہی نے سورۂ فاتحہ میں سکھایا اِیَّاکَ نَعۡبُدُ ہم تو آپ ہی کی غلامی کرتے ہیں۔
توبہ کی سلطنت اور نفس و شیطان کی اپوزیشن
مگر ہم شیطان ونفس کے گھیراؤ میں بھی ہیں، ہماری اپوزیشن بھی بہت ہے، اس لیے ہماری توبہ کی سلطنت آپ ہی کے کرم سے قائم رہے گی، ورنہ ڈر ہے کہ اپوزیشن کہیں قبضہ نہ کرلے، جیسے یہاں بھی جو دنیوی سلطنت پاجاتے ہیں وہ کسی بڑی سلطنت سے رابطہ رکھتے ہیں کہ کوئی مصیبت آئے تو مائی باپ بچانا۔ ایسے ہی بندہ جو اللہ والا ہے وہ توبہ تو کرتا ہے،
_____________________________________________
8؎ روح المعانی : 56/13، یوسف (98)، دار احیاء التراث، بیروت